Newspaper Article 12/09/2017
سبھی جانتے ہیں کہ عیدِ قرباں ایثار و قربانی کا دوسرا نام ہے اور اس متبرک اور محترم موقع پر دنیا بھر کے مسلمان بالعموم اور پاکستانی عوام بالخصوص اس ضمن میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتے اور اپنے تن من دھن سے پوری کوشش کی جاتی ہے کہ اس تہوار کے جذبے کے پسِ پردہ اصل محرکات کو اس کی حقیقی روح کے مطابق ادا کریں ۔
تبھی تواس ضمن میں جتنی مالیت کی کھالیں عطیات کی جاتی ہیں ، اس کا تصور بھی عام نارمل حالات میں کوئی نہیں کر سکتا ۔ اس معاملے کا یہ پہلو بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ بیتے کئی برسوں سے دہشتگردی جیسے مکروہ فعل میں ملوث افراد اور گروہ بھی اس معاملے میں ایسا نا قابلِ رشک کردار ادا کرتے ہیں جس سے ہر ذی شعور کسی حد تک آگاہ ہے ۔ اور ایسے سہولت کار اس حوالے سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے جانے انجانے میں ان منفی عناصر کی امداد ہو سکے۔
اور یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ قبیح عمل محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے دیگر معاشروں میں بھی یہ دھندا بڑی حد تک پھل پھول رہا ہے جس کی تازہ مثال چند روز قبل تب سامنے آئی جب بھارت میں بابا ’ ’ گرو میت رام ‘‘ نے ’’ ڈیرہ سچا سودا ‘‘ نامی تنظیم بنا کر لاکھوں بلکہ کروڑوں عام لوگوں کو بیوقوف بنایا اور کروڑوں ہی نہیں بلکہ اربوں کی جائیداد بنائی ۔ اور یہ سلسلہ قریباً ہر جگہ پر جاری ہے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ بھارتی صوبے ہریانہ کا وزیر اعلیٰ اور ’’ آر ایس ایس ‘‘ کا سر گرم لیڈر ’’ منوہر لعل کھٹر ‘‘ بھی اس معاملے میں پیش پیش ہے اور اس نے مودی اور راجناتھ سنگھ کی ہدایات پر ’’ گرومیت رام ‘‘ کی پھر پور معاونت کی اور اس ضمن میں ہر طرح سے سہولت کاری کی ۔اس کے علاوہ اس ضمن میں بھارت میں ماضی قریب کے آسا رام باپو ،نرمل بابا ، سنت رام پال ، ایشا دھاری سنت ، سوامی بھیمانند مہاراج اور سوامی نیتا نند جیسے ڈھونگیوں کے نام بطور دلیل پیش کیے جا سکتے ہیں ۔
اسی تناظر میں غیر جانبدار انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تمام دنیا کی مانند وطنِ عزیز میں بھی اس قسم کے کچھ گروہ خاصے سر گرم ہیں جو ایسے تعصبات کو فروغ دے کر براہ راست ’’ را ‘‘ ، ’’ این ڈی ایس ‘‘ اور اس نوع کی دوسری دہشتگرد تنظیموں کی ہر ممکن معاونت کرتے ہیں ۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ عید الضحیٰ جیسے مقوس تہوار کے موقع پر سبھی حلقے صدقہ خیرات کرتے ہوئے اس بات کا خصوصی دھیان رکھیں گے کہ اس کا فائدے معاشرے کے نا پسندیدہ طبقات نہ اٹھا سکیں ۔ اس ضمن میں معاشرے کے تمام طبقات پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے آگاہی کی ایسی مہم چلائیں جس سے ان منفی سوچ کے حامل عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور اچھی سوچ رکھنے والے مستحق طبقات کی امداد ہو سکے ۔ یوں پاکستانی سماج بتدریج ارتقاء کی منازل زیادہ موثر ڈھنگ سے طے کر پائے گا ( انشاء اللہ )
تبھی تواس ضمن میں جتنی مالیت کی کھالیں عطیات کی جاتی ہیں ، اس کا تصور بھی عام نارمل حالات میں کوئی نہیں کر سکتا ۔ اس معاملے کا یہ پہلو بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ بیتے کئی برسوں سے دہشتگردی جیسے مکروہ فعل میں ملوث افراد اور گروہ بھی اس معاملے میں ایسا نا قابلِ رشک کردار ادا کرتے ہیں جس سے ہر ذی شعور کسی حد تک آگاہ ہے ۔ اور ایسے سہولت کار اس حوالے سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے جانے انجانے میں ان منفی عناصر کی امداد ہو سکے۔
اور یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ قبیح عمل محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے دیگر معاشروں میں بھی یہ دھندا بڑی حد تک پھل پھول رہا ہے جس کی تازہ مثال چند روز قبل تب سامنے آئی جب بھارت میں بابا ’ ’ گرو میت رام ‘‘ نے ’’ ڈیرہ سچا سودا ‘‘ نامی تنظیم بنا کر لاکھوں بلکہ کروڑوں عام لوگوں کو بیوقوف بنایا اور کروڑوں ہی نہیں بلکہ اربوں کی جائیداد بنائی ۔ اور یہ سلسلہ قریباً ہر جگہ پر جاری ہے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ بھارتی صوبے ہریانہ کا وزیر اعلیٰ اور ’’ آر ایس ایس ‘‘ کا سر گرم لیڈر ’’ منوہر لعل کھٹر ‘‘ بھی اس معاملے میں پیش پیش ہے اور اس نے مودی اور راجناتھ سنگھ کی ہدایات پر ’’ گرومیت رام ‘‘ کی پھر پور معاونت کی اور اس ضمن میں ہر طرح سے سہولت کاری کی ۔اس کے علاوہ اس ضمن میں بھارت میں ماضی قریب کے آسا رام باپو ،نرمل بابا ، سنت رام پال ، ایشا دھاری سنت ، سوامی بھیمانند مہاراج اور سوامی نیتا نند جیسے ڈھونگیوں کے نام بطور دلیل پیش کیے جا سکتے ہیں ۔
اسی تناظر میں غیر جانبدار انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تمام دنیا کی مانند وطنِ عزیز میں بھی اس قسم کے کچھ گروہ خاصے سر گرم ہیں جو ایسے تعصبات کو فروغ دے کر براہ راست ’’ را ‘‘ ، ’’ این ڈی ایس ‘‘ اور اس نوع کی دوسری دہشتگرد تنظیموں کی ہر ممکن معاونت کرتے ہیں ۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ عید الضحیٰ جیسے مقوس تہوار کے موقع پر سبھی حلقے صدقہ خیرات کرتے ہوئے اس بات کا خصوصی دھیان رکھیں گے کہ اس کا فائدے معاشرے کے نا پسندیدہ طبقات نہ اٹھا سکیں ۔ اس ضمن میں معاشرے کے تمام طبقات پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے آگاہی کی ایسی مہم چلائیں جس سے ان منفی سوچ کے حامل عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور اچھی سوچ رکھنے والے مستحق طبقات کی امداد ہو سکے ۔ یوں پاکستانی سماج بتدریج ارتقاء کی منازل زیادہ موثر ڈھنگ سے طے کر پائے گا ( انشاء اللہ )
اکتیس اگست کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)