بھارتی وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ دہلی سرکار کی بابت یہ الزام غلط ہے کہ اس نے اپنے پڑوسی ملکوں کے حوالے سے ’’ بِگ برادر ‘‘ کا طرزِ عمل اپنا رکھا ہے اور سبھی ہمسایوں کے ساتھ دھونس اور دھاندلی پر مبنی رویہ اپنا رکھا ہے ۔ ان کے بقول حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ ’’ بِگ برادر ‘‘ کی بجائے ’’ ایلڈر برادر ‘‘ کی حیثیت سے اپنے سبھی پڑوسی ممالک کا ’’ دھیان ‘‘ رکھنا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے ۔ موصوف نے ان خیالات کا اظہار 6 مئی کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کیا ۔ یاد رہے کہ اسی روز بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں ’’ لوک سبھا ‘‘ نے بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی تنازعات حل کرنے کی بابت اتفاق رائے سے ایک بل کی منظوری دی ۔ اس بل کی حمایت میں 331 اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا ۔ اس سے ایک روز پہلے یعنی 5 مئی کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا ’’ راجیہ سبھا ‘‘ میں بھی بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی تنازعات کے بابت یہی بل اتفاق رائے سے منظور ہوا جہاں اس کے حق میں 180 اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا ۔ اس بل کو بھارتی آئین کی 100 ویں ترمیم کے طور پر ہندوستانی آئین میں شامل کر لیا گیا ۔ اس آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد مودی نے اپوزیشن بینچوں پر جا کر سونیا گاندھی اور دوسرے اپوزیشن لیڈروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بھارت کے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پارٹی سیاست سے بالا تر ہو کر اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیں تو چند باتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں ۔ اول تو یہ کہ قومی مفادات کے حوالے سے بھارت کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں اکھٹی ہیں ۔ اس کے ساتھ دوسرا پہلو یہ ہے کہ نریندر مودی نے پڑوسی ملکوں کے حوالے سے اس حقیقت کو بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ بھارت خود کو ان سے برتر اور بڑا سمجھتا ہے اور ان کا ’’دھیان‘‘ رکھنے کے نام پر ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اپنا قومی اور مذہبی فریضہ سمجھتا ہے اور موصوف نے ’’ بگ برادر ‘‘ اور ’’ ایلڈر برادر ‘‘ کے حوالے سے جو مو شگافی کی ہے اس کی حیثیت بے سر و پا اورلا یعنی دلیل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ اسی تناظر میں یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت نے پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف ثقافتی جارحیت اور مداخلت کا لا متناہی سلسلہ عرصہ دراز سے شروع کر رکھا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ دو عشرے قبل کانگرسی سربراہ سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کے مسلح حملے کی ضرورت ہی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر ثقافتی یلغار کی جائے اور ثقافتی یلغار کا ہتھیار اتنا خطرناک ہوتا ہے جس کے آگے بڑے سے بڑا دفاع بھی کمزور پڑ جاتاہے ۔ اور یقیناًدہلی کے حکمرانوں نے گذشتہ ربع صدی سے اپنے اس ایک نکاتی ایجنڈے پر بڑی تن دہی سے عمل کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور اصل المیہ اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اکثریت نے اس بھارتی ایجنڈے کو برضا و رغبت نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس پر عمل کرنا غالباً گویا اپنا قومی بلکہ مذہبی فریضہ تصور کر لیا ہے کیونکہ اکثر چینلز کے نیوز بلٹن کے آخری حصہ صرف بھارتی فلموں اور اداکاروں کی پبلسٹی کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے یوں نادانستگی میں بھارتی کلچر کو پوری طرح فروغ دیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے ابتدائی دو عشروں میں بہت سی شاہکار فلمیں اور گیت تخلیق کیے گئے جن کو اگر پاکستانی میڈیا ہندوستانی فلموں کی بجائے اپنے نیوز خبر ناموں میں شامل کرے تو اس کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچنے کے بجائے غالباً فائدہ ہو گا اور نئی نسل کو بھی یہ ٹھوس پیغام جائے گا کہ کلچر اور ثقافت کے محاذ پر بھی پاکستان تہی دامن نہیں بلکہ اس معاملے میں وہ بھارت سے بھی اگر آگے نہیں تو کم از کم پیچھے بھی نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستانی میڈیا کے چند حلقے خصوصاً نوائے وقت نے اس ضمن میں اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ کاروباری فوائد کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کا بھی بیک وقت تحفظ احسن طریقے سے کیا جا سکتا ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں اس ضمن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ حکومتی ادارے اور سول سوسائٹی اپنا کردار مثبت ڈھنگ سے نبھائے گی ۔ گیارہ مئی کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔ ( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )
