پاک چین اقتصادی راہداری کی تفصیلی بریفنگ کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان نے 13 مئی کو جو اجلاس بلایا ، اس سے محض دو گھنٹے قبل کراچی کے علاقے ’’ صفورا گوٹھ ‘‘ میں شیطانیت پر مبنی جو سانحہ پیش آیا ، اس کی مذمت کے لئے الفاظ ڈھونڈ پانا غالباً کسی بھی ذی شعور انسان کے لئے ممکن نہیں کیونکہ درندگی ، سفاکی اور دہشتگردی جیسے الفاظ بھی پوری طرح اس شیطانی عمل کا پورا طرح احاطہ نہیں کر پاتے ۔ اس سے چند ماہ پہلے 16 دسمبر 2014 کو سانحہ پشاور پیش آیا تھا ، کراچی کے واقعے نے اس المیے کی یاد د وبارہ تازہ کر دی ہے ۔ بس کو روک کر جس طرح ایک ایک مسافر کو فرداً فرداً گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ سبھی جانتے ہیں کہ اسماعیلی کمیونٹی انتہائی پر امن اور اپنے کام سے کام رکھنے کی شناخت رکھتی ہے مگر وطنِ عزیز کے دشمنوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ گھناؤنا فعل انجام دیا ۔
اگر پوری طرح غیر جانبدار ہو کر اس کے ممکنہ محرکات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے تو چند ایک چیزیں خاصی واضح طور پر نظر آتی ہیں ۔ یوں تو گذشتہ برس پندرہ جون کو جب ’’ آپریشن ضربِ عضب ‘‘ شروع کیا گیا اور دہشتگردوں پر کاری ضرب لگائی گئی تو بڑی حد تک ان کی کمر ٹوٹ گئی، ایسے میں پاکستان کے اندرونی اور بیرو نی دشمنوں نے سوچا کہ اگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا تو پاکستان کے خلاف ان کے تمام عزائم دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور پاکستان ایک جانب اقتصادی خوشحالی کی منزل کو پا لے گا اور دوسری طرح جغرافیائی اور سیاسی استحکام بھی پوری طرح حاصل ہو جاے گا ۔ اسی پس منظر میں گذشتہ برس چینی صدر کے دورہ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے ملک کے اندر عجیب قسم کا سیاسی انتشار کا منظر نامہ سامنے آیا اور ایک مرحلے پر عجیب بے یقینی کی کیفیت طاری ہو گئی مگر اس مرحلے پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے مکمل یکجہتی اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اس صورتحال پر قابو پا لیا ۔
اس کے بعد 21 ستمبر کو افغانستان میں قومی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور صدر اشرف غنی کی قیادت میں نئی حکومت بنی اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معجزانہ طور پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں باہمی خوش گواری کا نیا عنصر داخل ہوا جس کی وجہ سے بھارت سمیت پاکستان کے بہت سے بیرونی مخالفین کو اپنے مکروہ عزائم خاک میں ملتے نظر آئے تو ایسے میں ایک جانب لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی پر مبنی انتہائی شدید روش اپنائی گئی تو اس کے ساتھ ہی 28 ستمبر کو نیو یارک میں بھارتی وزیر اعظم مودی اور ان کے اسرائیلی ہم منصب میں خصوصی ملاقات ہوئی جس کے فوراً بعد ’’نیتن یاہو ‘‘ نے آن دی ریکارڈ یہ کہا کہ بھارت اور اسرائیل مشترکہ مفادات کی تکمیل کے ضمن میں ’’لا محدود ‘‘ تعاون کرنے پر متفق ہو گئے ہیں ۔ اس ضمن میں موصوف نے ’’ سکائی از دی لِمٹ، ان انڈیا اسرائیل ریلیشنز اینڈ کوآپریشن‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر نے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ پاکستان کو کمزور کرنے کے حوالے سے بھارت نے “اوفینسیو ڈیفنس ” ( جارحانہ دفاع )کی حکمتِ عملی اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے یعنی پاکستان کے اندر سے ریاست مخالف عناصر کی زیادہ اور فعال سرپرستی کے ذریعے پاکستان کو کمزور کیا جائے ۔
اسی پس منظر میں دیگر بہت سے واقعات کے علاوہ سانحہ پشاور پیش آیا جس کے رد عمل کے طور پر پاکستان کی حکومت ، اپوزیشن اور عسکری قیادت نے ایک نئے جذبے کے ساتھ ’’ نیشنل ایکشن پلان ‘‘ ترتیب دیا اور اس ضمن میں اکیسویں آئینی ترمیم بھی منظور ہوئی تا کہ دہشتگردوں پر حتمی اور قاری ضرب لگائی جائے ۔ یوں ضربِ عضب کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ۔ اس کے جواب میں پاکستان کے مخالفین نے بھی دہشتگردی پر مبنی اپنی کاروائیاں تیز کر دیں اور سانحہ تربت جیسے کئی واقعات پیش آئے ۔ 20 تا 21 اپریل کو چینی صدر پاکستان تشریف لائے اور اکنامک کاریڈور سمیت بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوئے جن پر چین 46 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ ظاہر ہے ، یہ ایسی بات تھی جو پاکستان کے اندورنی و بیرونی مخالفین کو کسی بھی طور ہضم ہونے والی نہیں تھی لہذا بادی النظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وطنِ عزیز کی خوشحالی اور سلامتی کے خلاف ایک نئی مہم شروع کی گئی جس میں ایک جانب اندرونِ ملک سیاسی انتشار کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملی جبکہ دوسری طرف نمایاں امریکی یہودی صحافی ’’ سیمور ہرش ‘‘ نے اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایک عجیب و غریب سٹوری شائع کی جس میں ایک جانب افواجِ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش واضح نظر آتی ہے تو دوسری جانب امریکی صدر اوبامہ کو بھی دفاعی رخ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ گذشتہ ایک برس میں موصوف نے چند حوالوں سے کئی فیصلے اسرائیل کے خلاف لینے کی کوشش کی اور دوسری طرف وہ ایران کے ساتھ بھی حتمی معاہدے کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں اور اس ضمن میں 30 جون حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے ۔
سانحہ کراچی کی ٹائمنگ کے حوالے سے اس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ یہ المیہ مودی کے چین کے مجورہ دورے (14 تا 16 مئی ) سے محض ایک روز پہلے پیش آیا اور یوں ظاہری طور پر بھارتی وزیر اعظم چینی قیادت کو اپنی دانست میں یہ قائل کرنے کی ناکام کوشش کر سکتے ہیں کہ پاکستان بہت بڑی سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ملک نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں 12 مئی کو پاک وزیر اعظم اور آرمی چیف افغانستان کے کامیاب دورے سے لوٹے جس میں اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دشمن ہے ۔ ظاہر ہے یہ بات کئی ملکوں کو ہضم نہیں ہوئی ہو گی ۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ دہشتگردی کے اس واقعے کی وجہ سے آرمی چیف کو اپنا سری لنکا کا دورہ منسوخ کرنا پڑا جس کی بہرحال اپنی اہمیت ہے کیونکہ دہلی کی خواہش ہے کہ پاک سری لنکا مثالی تعلقات میں مزید بہتری نہ آئے ۔
بہر کیف توقع کی جانی چاہیے کہ پوری پاکستانی قوم ، سیاسی اور عسکری قیادت اب تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ پورے ملک میں بڑھائے گی تا کہ آپریشن راہِ راست اور راہِ نجات کی مانند یہ آپریشن بھی اپنے منطقی نتائج حاصل کر سکے ۔ یہاں شاید اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو کہ گذشتہ برس مہران بیس میں بھی تقریباً انہی دنوں اندرونی دہشتگردوں نے اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر دہشتگردی کی تھی اور آپریشن راہِ راست بھی 16 مئی 2009 کو شروع ہوا تھا ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ معاشرے کے تمام طبقات اس ضمن میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے ۔
پندرہ مئی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )
