Newspaper Article 24/01/2014
بھارت کے طول و عرض میں 26جنوری کو یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس موقع پر ہر برس کسی غیر ملکی سربراہ کو چیف گیسٹ کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔اس سال جاپان کے وزیرِ اعظم ’’شِن زو ایبے‘‘SHINZO ABE کو مہمانِ خصوصی کی حیثیت دی گئی ہے۔گذشتہ 5 برسوں میں چار بار جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے حکومتی یا ریاستی سربراہوں کو بھارتی یومِ جمہوریہ کی زینت بنایا گیا ہے۔
2012 میں تھائی لینڈ کی وزیرِ اعظم،2011 میں انڈونیشیا کے صدر،2010 میں کوریا کے صدر اور اس بار جاپانی وزیرِ اعظم ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں دہلی سرکار کی خارجہ پالیسی میں مشرقی ایشیا سے تعلقات کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے کے 60 برسوں میں ایسٹ ایشیا سے متعلقہ شخصیات محض چار بار اس حیثیت میں بھارتی مہمان بنے جن میں 1994 میں سِنگا پور کے وزیرِ اعظم،1989 میں ویت نام کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری،1963 میں کمبوڈیا( کمپوچیا) کے پرنس ’’سہا نوک‘‘ اور 1950 میں انڈونیشیاء کے صدر ’’سوئیکارنو ‘‘ اور 1958 میں چین کے وزیرِ دفاع ’’مارشل چن زی‘‘ تھے۔البتہ اس کے بعد بھارت اور چین کے تعلقات میں بتدریج تلخی آتی چلی گئی جس کا نقطہ عروج 1962 میں دونوں ملکوں کی کھلی جنگ تھا۔
ممتاز بھارتی مبصر ’’سی راجہ موہن‘‘ کے مطابق چین کی حکومت جاپانی وزیرِ اعظم کی حالیہ آمد کو غالباً نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گی جس سے بھارت چین تعلقات میں قدرے سرد مہری آ سکتی ہے۔(انڈین ایکسپریس 22.1.2014 ) مگر موصوف نے بھارت سرکار کو مشورہ دیا ہے دہلی کو چین اور جاپان کے مابین حالیہ کشیدگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے(انڈین ایکس پریس 24.1.2014 ) بہر کیف 26 جنوری 1950 کو بھارت کا آئین نافذ العمل ہوا تھا اگرچہ ہندستانی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری نومبر 1949 میں دے دی تھی مگر اس کے نفاذ کی تاریخ 26 جنوری 1950 طے پائی جس کے بعد 1952 میں لوک سبھا کے پہلے عام انتخابات ہوئے ۔
قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ اس بھارتی آئین کو ڈرافٹ کرنے والے ذاکٹر ’’امبیڈکر‘‘ جو اچھوت ہندوؤں کے سب سے بڑے رہنما تھے اور انھیں اس آئین کا خالق قرار دیا جاتا ہے مگر انھیں بھی غالباً چند برس میں اندازہ ہو گیا کہ دہلی کے بالا دست ہندو طبقات ہر معاملے میں قول و فعل کے بد ترین تضاد کا شکار ہیں اور انھیں نہ کسی انسانی ضابطے اور اخلاقی روایت کی پرواہ ہے اور نہ ہی کسی لکھے ہوئے معاہدے یا آئین کا مکمل لحاظ ۔ تبھی تو بھارتی آئین کے اس خالق نے مایوسی کی حالت میں 1957 میں نہ صرف کانگرس سے علیحدگی اختیار کر لی بلکہ ہندو دھرم ترک کر کے بدھ مت اختیار کر لیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔صرف اسی ایک بات سے ہندوستانی حکمرانوں کی ذہنیت کسی حد تک واضح ہو جاتی ہے ۔
دوسری جانب 26 جنوری 2014کو مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں بھارتی ’’ری پبلک ڈے ‘‘ کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔بزرگ کشمیری رہنما ’’سید علی گیلانی‘‘نے اس حوالے سے دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں سے اس روز احتجاج کی اپیل کرتے کہا ہے کہ دہلی کے غاصبانہ تسلط کے خلاف 26جنوری یومِ سیاہ کے طور پر منایا جائے۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کشمیری قوم کو بھارت یا اس کے یومِ جمہوریہ سے کوئی عناد نہیں لیکن مقبوضہ دیاست کے ایک کروڑ سے زائد عوام دہلی سرکار کی مسلسل وعدہ خلافیوں اور حکومتی دہشتگردی سے تنگ آ گئے ہیں لہذا دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کی توجہ کشمیریوں کی زبوں حالی کی طرف مرکوز کرنے کے لئے یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے ۔
مبصرین کے مطابق بھارتی جبر کے خلاف گذشتہ 25برسوں سے کشمیری قوم بھارت کی آزادی کے دن (15 اگست) اور 26 جنوری کو سیاہ دنوں کے طور پر مناتی ہے۔تجزیہ کاروں نے اس موقع پر اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ 21 جنوری 2014 کو مقبوضہ ریاست کے نمائشی وزیرِ اعلیٰ نے بھی 24برس قبل ’’کدال‘‘ گاؤں میں کشمیریوں کی نسل کشی کے حوالے سے کہا ہے کہ 21جنوری مقبوضہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب 50 سے زائد معصوم کشمیری قابض بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔
اس ضمن میں مبصرین نے کہا ہے کہ اگرعمر عبداللہ جیسی بھارت نواز شخصیات بھی ایسی بات کریں تو صورتحال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ویسے بھی کشمیری قوم کے ایک لاکھ سے زائد فرزند بھارتی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ایسے میں یوں تو کشمیریوں کے لئے ہر دن ہی روزِ سیاہ ہے بہر کیف امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اس ضمن میں اپنی انسانی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے بے حسی کی روش ترک کر کے مثبت طرزِ عمل اپنائے گی۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)