Newspaper Article 23/02/2014
پاکستانی حکومت اور شدت پسند گروہوں کے ما بین تقریباً ایک ماہ قبل جب مذاکرات کا آغاز ہوا تو پوری قوم نے گویا سکھ کا سانس لیا اور معاشرے کے تمام طبقات نے توقع ظاہر کی کہ اس عمل کے نتیجے میں ملک و قوم میں امن کی ایسی فضا قائم ہو گی جس کی وجہ سے سلامتی کا حقیقی سفر شروع ہو گا اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی جانب مثبت پیش رفت کے نتیجے میں بے روزگاری،توانائی کے بحران،اور امن و امان کی صورتحال کو درپیش مسائل پر خوش اسلوبی سے قابو پا لیا جائے گا مگر بد قسمتی سے یہ توقعات پوری نہ ہو پائیں بلکہ ان چند ہفتوں کے دوران پے درپے دہشتگردی کے ایسے واقعات پیش آئے جس میں تسلسل کے ساتھ پولیس ،افواجِ پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کو سفاکانہ ڈھنگ سے دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ۔ابتدائی کچھ واقعات میں تو TTP نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہ کی جس کی وجہ سے یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا کہ مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچانے والی اندرونی اور بیرونی قوتیں اس عمل کے پسِ پشت ہیں ۔
مگر جب کراچی میں بڑے پیمانے پر پولیس اہلکاروں کو شہید کیا گیا اور ’’ایف سی‘‘ کے 23 جوانوں کو حراست کے دوران ذبح کیا گیا اور اس کی ذمہ داری بھی تحریک طالبانِ پاکستان کے ترجمان نے فخریہ انداز میں قبول کی تو ایسے میں پوری قوم میں بجا طور پر غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور حکومت نے کہا کہ مذاکراتی عمل تبھی جاری رہے گا جب TTP کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان سامنے آئے اور اس پر عمل ہوتا بھی محسوس ہو ۔
اسی پس منظر میں وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اطلاعات کی جانب سے کہا گیا کہ دہشتگردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔وزیرِ اطلاعات سینیٹر ’’پرویز رشید‘‘ نے اسی حوالے سے 19 فروری کو میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ’’زیرِ حراست قیدیوں کو تو بد ترین دشمن بھی بالعموم قتل نہیں کرتے ‘‘۔
وفاقی وزیر نے سوال کیا کہ کون سی شریعت ایسی سفاکی کی اجازت دیتی ہے ۔اسی موقع پر وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ پاک فوج اس امر کی اہل ہے کہ دہشتگردوں سے بخوبی نمٹ سکے کیونکہ پاک فوج نے گذشتہ سالوں میں ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جا کر امن و امان بحال کر سکتی ہے اور شر پسندوں کو کنٹرول کر سکتی ہے جس کا ثبوت اقوامِ متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی دستوں کی شاندار کارگردگی ہے اور جو فوج دوسرے ملکوں میں جا کر حالات ٹھیک کر سکتی ہے ،وہ اپنے یہاں کے شدت پسندوں کو کیوں قابونہیں کرسکتی ۔
مبصرین نے وزیرِ اطلاعات کے اس موقف کو حق گوئی پر مبنی قرار دیتے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی فوج میں دنیا کے مختلف حصوں میں امن قائم کے حوالے سے پاکستان کا شمار پہلے نمبر پر کیا جاتا ہے جس کا اعتراف 13 اگست 2013 کو اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ’’بانکی مون ‘‘نے کیا جب وہ اسلام آباد اپنے دو روزہ دورے پر آئے اور ’’ Center For International Peace And Stability(CIPS) کا افتتاح کیا ۔واضح رہے کہ یہ تحقیقی مرکز NUST سے ملحقہ ہے اور اس کا اجراء اقوامِ متحدہ نے عالمی امن کے قیام میں پاک فوج کے کردار کے اعتراف کے طور پر کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق 1960 سے اب تلک افواجِ پاکستان کے 151505 افسروں اور اہلکاروں نے 23 مختلف ممالک میں 41 مشن انجام دیئے ہیں اور اس وقت بھی 8247 پاک افواج کے افسر اور جوان 7 UN Missions میں3 مختلف براعظموں میں عالمی امن کے قیام کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
پاک افواج نے اس ضمن میں پہلا مشن 1960 میں کانگو میں انجام دیا تھا (اگست 1960 تا مئی 1964 )۔ کمبوڈیا (مارچ 1992 تانومبر1993 ) ،ایسٹ تیمور،انگولا(فروری1995 تا جون 1997 )،ہیٹی(1993 تا1996 )، لائیبیریا(2003 تا تاحال)،ایسٹرن سلووینیا (مئی 1996 تا اگست 1997 )،آئیوری کوسٹ،روانڈا(اکتوبر1993 تا مارچ 1996 )،صومالیہ(مارچ1992 تا فروری1996 )،سوڈان(2005 تا تاحال)،سیرا لیون (اکتوبر 1999 تا دسمبر 2005 ) ،کویت(دسمبر1991 تا اکتوبر1993 )،بوسنیا(مارچ 1992 تا فروری1996 )،برونڈی (2004 تا تاحال)،کوٹے ڈی لورے(2004 تا تاحال)، نانمبیا(اپریل1989 تا مارچ 1990)،ویسٹ نیو گیانا (اکتوبر 1962 تا اپریل 1963 )اور دیگر کئی ملکوں اور مختلف براعظموں میں پاک فوج عالمی امن کی بحالی کے لئے خدمات انجام دیتی رہی ہے،ان خدمات کے دوران136 اہلکار اور 22 افسر شہید بھی ہوئے۔
بہرکیف ایسے میں بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وطنِ عزیز کے اندر بھی گمراہ عناصر راہِ راست پر آ جائیں گے۔یہ بھی امید کی جانی چاہیے کہ یہ طبقات عقلِ سلیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کے مخالف بیرونی اور اندرونی عناصر کی سازشوں میں دانستہ یا نادانستہ طور پر معاونت کا سبب نہیں بنیں گے بلکہ ملک و قوم کی بھلائی کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کریں گے ۔علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری عالمی امن کے قیام کے لئے پاکستان کے نمایاں کردار کے پیشِ نظر کشمیر سمیت سبھی حل طلب مسائل کی جانب خود بھی منصفانہ طرزِ عمل اپنائے گی۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)