Newspaper Article 13/07/2014
کشمیر کی آزادی کی تحریک میں یوں تو ہر دن ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گذشتہ ۷۰۔ ۸۰برس میں قابض بھارتی حکمرانوں نے کشمیری عوام کے خلاف لگ بھگ ہر ہفتے،عشرے بعد کوئی نہ کوئی ایسا ظلم ڈھایا ہے جس کو فراموش کرنا کشمیری عوام کے بس کی بات نہیں مگر پھر بھی کچھ دن اور تاریخیں اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔
انہی میں سے ایک ۱۳ جولائی کا دن بھی ہے۔کیونکہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ کو کشمیر کے ہندو ڈوگرہ حکمرانوں نے ۲۲کشمیریوں کو شہید کر کے گویا تحریکِ آزادی کشمیر کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی تھی۔یہ سانحہ سری نگر کی سینٹرل جیل کے سامنے پیش آیا چونکہ جیل کے اندر اور باہر حکمرانوں نے اذان دینے اور نماز پڑھنے کی پابندی لگا رکھی تھی ۔اس ظلم کے خلاف جب نہتے معصوم کشمیریوں نے صدائے احتجاج بلند کی تو ڈوگرہ سپاہیوں نے نہتے کشمیریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں ۲۱ کشمیری موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ ۱۰۰ کے قریب ذخمی ہوئے۔
ان شہادت پانے والوں کا جرم محض یہ تھا کہ وہ اپنے ہندو حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انھیں اذان دینے اور نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے مگر اس انتہائی جائز مطالبے کے ردِ عمل کے طور پر ان سے زندہ رہنے کا بنیادی حق چھین لیا گیا۔یوں ڈوگرہ حکمرانوں نے ثابت کیا کہ ان میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق بھی باقی نہ تھی۔
اسی روش کو جاری رکھتے ہوئے بھارت کی دہلی سرکار نے گذشتہ ۶۷ برسوں میں کشمیر کے حریت پسند عوام کے خلاف ظلم و جبر کے وہ پہاڑ توڑے ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا بھی پوری طرح ممکن نہیں۔سالِ رواں یعنی ۲۰۱۴ میں یکم جنوری سے یکم جون تک ۵۴ کشمیریوں سے زندگی کا حق چھین لیا گیا ۔ان میں سے ۹ افراد کو حراست کے دوران شہید کیا گیا جبکہ ساڑھے پانچ ماہ کے اس عرصے میں ۳۴۳۸ بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا اور ۸ مکانات اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔اس بھارتی سفاکی کے نتیجے میں دو خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ ۳ معصوم بچے یتیم ہوئے۔اسی طرح ۳۴ خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یاد رہے کہ مقبوضہ ریاست کے عوام کے خلاف قابض بھارتی حکام کی یہ روش کوئی نئی بات نہیں بلکہ جنوری ۱۹۸۹سے دسمبر ۲۰۱۳ تک دہلی کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں مجموعی طور پر ۹۳۹۸۴ معصوم کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔ ۷۰۱۴ افراد حراست کے دوران جاں بحق ہوئے اور اس عرصے کے دوران ۱۲۲۷۷۱ کشمیریوں کو جرمِ بے گناہی میں گرفتار کیا گیا اور کشمیری قوم کے معاشی قتل کے خاطر ۱۰۵۹۹۶ مکانات اور دکانوں کو یا تو نذرِ آتش کیا گیا یا ان کو مکمل مسمار کر دیا گیا۔قابض بھارتی فوج کی سفاکی کے نتیجے میں ۱۰۷۴۶۶ بچوں سے ان کے والدین کی شفقت کا سایہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا گیا جبکہ ۲۲۷۷۶ کشمیری خواتین کے خاوند شہید کر کے انہیں بیوگی کے لق و دق صحرا میں دھکیل دیا گیا۔اور بھارتی زیادتیوں کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اس مدت کے دوران ۱۰۰۸۶عفت مآب کشمیری خواتین کے خلاف اجتماعی بے حرمتی کے شرمناک واقعات پیش آئے جس کے لئے دہلی سرکار کے علاوہ کسی دوسرے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اتنے مظالم کے باوجود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ آنے والے دنوں میں اپنے اچھے سلوک کی بنا پر کشمیریوں کے دل جیتے جائیں گے یقیناًبہت بڑی ستم ظریفی ہے۔بہر کیف اسی پس منظر میں ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ کو دنیا بھر کے کشمیری یومِ شہدائے کشمیر کے طور پر منا رہے ہیں ۔اس موقع پر سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے مقبوضہ ریاست میں ہڑتال کی اپیل کی ہے تا کہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے دعوے داروں کی توجہ کشمیری عوام کی حالت زار کی طرف دلائی جا سکے۔
امید کی جانی چاہیے کہ انسان دوست عالمی حلقے بین الاقوامی میڈیا اور وطنِ عزیز کی سول سوسائٹی اس ضمن میں اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی۔
۱۳جولائی کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)