Newspaper Article 17/10/2014
۱۱تا ۱۴ ستمبر ۲۰۱۴ کو دہلی میں اقتصادی مصنوعات کی نمائش منعقد کی گئی ۔اس میں حصہ لینے والے پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کو فی کس ۴۰ ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا ۔ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے متعلقہ پولیس تھانوں میں اپنی آمد کی رپورٹ درج نہیں کرائی ۔مبصرین کے مطابق ۲۰۱۲ کے پاک بھارت باہمی ویزا معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ملک میں جانے پر تاجروں اور صنعت کاروں کو مروجہ طریقے سے متعلقہ تھانوں میں اپنی آمد کی رپورٹ درج کروانے سے مبرّا قرار دیا تھا ۔
اس معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ پاک بھارت کے مابین باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہو سکے مگر بد قسمتی سے مودی سرکار کی آمد کے بعد سے دیگر امور کی مانند اس حوالے سے بھی پاکستانی تاجروں کے ساتھ انتہائی بد سلوکی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں آپسی تجارت اور کاروبار میں اضافہ کے خواہش مند حلقوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور باہمی تجارت کے مخالفین کی رائے زیادہ معتبر قرار پائی ہے ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ کہ اپنے سبھی ہمسایوں کے ساتھ بہتر سفارتی ،سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کیے جائیں ۔ مگر بد قسمتی سے بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے پاک بھارت معاشی تعلقات میں خاطر خواہ بہتری نہیں آ پائی ۔
اور یہ مسئلہ صرف پاک بھارت تعلقات کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کا وجود ہی ۱۹۸۵ میں اسی مقصد کی خاطر عمل میں آیا تھا۔ سارک کے بانیوں میں بنیادی کردار اس وقت بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمن نے ادا کیا تھا ۔ اور خطے کے دیگر ممالک یعنی پاکستان ،سری لنکا ،مالدیپ، نیپال بھوٹان نے بھی بڑی خوش دلی اور بلند توقعات کے ساتھ اس تنظیم میں شرکت اختیار کی تھی مگر ۲۹ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود خطے میں باہمی تعاون اور تجارت کو خاطر خواہ ڈھنگ سے فروغ نہیں حاصل ہو سکا ۔
اس صورتحال میں غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اس تمام تر صورتحال کی بنیادی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا ء کے تقریباً ۷۰ فیصد پر محیط ہے اور اس کی سرحدیں تمام سارک ملکوں سے ملتی ہیں لیکن اسے ستم ظریفی قرار دیا جائے یا دہلی سرکار کے بالادستی کے عزائم کہا جائے کہ کسی بھی سارک ملک کے ساتھ بھارت کے مثالی تجارتی تعلقات قائم نہیں اور سبھی کے ساتھ اس کے مختلف نوعیت کے سرحدی تنازعات چل رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہندو اکثریت کے واحد ملک نیپال کو بھی بھارت سے سخت شکایات لاحق ہیں اور ایک سے زائد مرتبہ بھارت اس کی اقتصادی ناکہ بندی کر چکا ہے۔
ایسے میں پاک بھارت اقتصادی روابط کے حوالے سے بہت زیادہ پر امید ہونا بھی غالباً خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ حالیہ دنوں میں ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت نے اشتعال انگیزیوں کا جو خطر ناک سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسے دیکھتے ہوئے مودی سرکار سے زیادہ توقعات رکھنا شاید خوش فہمی ہی ہے ۔کیونکہ ایک جانب بھارت نے بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور دیگر پاکستانی علاقوں میں دہشتگردی کو فروغ دینے کی حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے ۔ اور آبی جارحیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہا ہے ۔
ایسے میں محض دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ بھارتی حکمران مثبت طرزِ عمل اپنائیں اور کشمیر سمیت سبھی تصفیہ طلب مسائل کے حل کی جانب ٹھوس اور نظر آنی والی پیش رفت کریں تا کہ جنوبی ایشیاء میں بھی علاقائی تعاون ،امن و سلامتی اور باہمی تجارت کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔
اکتوبر 17 کو نوائے وقت اور پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )