Newspaper Article 19/10/2014
دس اکتوبر ۲۰۱۴ کو ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام دیا گیا ۔کسی بھی شخصیت کے لئے یہ انعام حاصل کرنا اپنے آپ میں اتنی بڑی کامیابی ہے جس کا اندازہ لگانا کسی کے لئے مشکل نہیں ہے ۔ بھارت کے طول و عرض میں بھی اگرچہ کیلاش کو یہ انعام ملنے پر خوشی کا ظہار کیا گیا مگر بہت سے بھارتی دانش وروں نے دبی دبی آواز میں اور چند ایک نے کھل کر اس موقف کا اظہار کیا کہ کیلاش ستیارتھی کے لئے اس انعام کا حصول یقیناًبہت بڑی کامیابی ہے مگر بھارتی ریاست اور حکومت کے لئے اس انعام کے ذریعے عالمی برادری نے اچھی خاصی خفت کا سامان مہیا کر دیا ہے،
یاد رہے کہ موصوف کو یہ انعام دیتے وقت جیوری نے واضح کیا ہے کہ وہ بھارت میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے گذشتہ ۲۵ سال سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ان تھک جدو جہد کر رہے ہیں اور نھوں نے اب تک ۸۰ ہزار سے زائد اغوا شدہ معصوم بچوں کو بازیاب کرایا ہے ۔ انھوں نے اس مقصد کے لئے ’’ بچپن بچاؤ اندولن ‘‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم بنا رکھی ہے جو اس شعبے میں کافی کام کر رہی ہے ۔ واضح رہے کہ کیلاش ستیارتھی ۱۱ جنوری ۱۹۵۴ کو بھارتی صوبے مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے تھے ۔ تعلیمی اعتبار سے انھوں نے الیکٹریکل انجیئرنگ میں ڈگری لی مگر ۲۶ سال کی عمر سے بھارت میں بچوں کے خلاف ہونے والے غیر انسانی مظالم کے خاتمے کی جدو جہد شروع کر دی جو تا حال جاری ہے ۔
غیر جانبدار مبصرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے ایک بار پھر ظاہر ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں تمام تر جمہوری ، سیکولرازم اور انسان دوستی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ اپنی بد ترین شکل میں جاری ہے جس کا شکار نہ صرف بھارتی اقلیتیں اور دیگر پسماندہ حلقے ہو رہے ہیں بلکہ بھارتی بچے اور خواتین بھی اس ناروا سلوک سے بچے ہوئے نہیں ہیں اور بھارتی ریاست اور سوسائٹی تا حال انسانی حقوق کی ان پا مالیوں کو ختم کرنے میں ذرا بھی کامیاب نہیں ہو سکیں اور یہ امر بھارتی بالا دست طبقات اور حکمرانوں کے لئے بلاشبہ شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے ۔
یاد رہے کہ خود بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۱ کی مردم شماری سے حاصل ہونے والے کوائف ظاہر کرتے ہیں کہ 1 کروڑ 26 لاکھ وہ بچے بھارت میں بد ترین استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں جن کی عمر پانچ سے 14 سال کے درمیان ہے ۔اسی گوشوارے کے مطابق بھارت میں چائلڈ لیبر کی قومی اوسط ۷۴. ۲ فیصد ، اچھوت ہندوؤں میں چائلڈ لیبر کی اوسط ۰۸. ۲ اور ہندوستان کے قبائلی پس ماندہ علاقوں میں کی شرح ۰۸.۳ فیصد ہے اور اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی شرمناک ہے کہ بھارت کی مسلم آبادی میں چائلڈ لیبرکی شرح ہندوؤں کے مقابلے میں ۴۰ فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔ اس کا انکشاف بھارتی ادارے ’’این ایس ایس او‘‘ یعنی نیشنل سیمپل سروے آرگنائیزیشن نے اپنی رپورٹ میں کیا ۔ وطنِ عزیز پاکستان کے وہ حلقے جو بھارتی ترقی و خوشحالی کے گن گاتے نہیں تھکتے ان کے لئے غالباً اس میں عبرت کا خاصا سامان موجود ہے ۔
بہر کیف بھارتی سرکاری ادارے ’’این آر سی بی ‘‘ یعنی نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے مطابق ہندوستان میں اوسطاً ہر آٹھ منٹ میں ایک بچہ اغوا ہو جاتا ہے اور اس غیر انسانی روش کا شکارخواتین اور بچیاں بھی بنتی ہیں ۔ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ڈھائی لاکھ خواتین اغوا کر کے نیپال سے جسمانی استحصال کی خاطر لائی گئی ہیں اور ان میں سے بھی سات ہزار بچیوں کی عمر ۹ سے ۱۰ سال ہے اور یہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں جنسی استحصالی اڈوں کی زینت بنا دی گئیں ہیں ۔
اوپر دیئے گئے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کے اندر معصوم بچوں اور خواتین کے خلاف انسانی حقوق کی پا مالیوں کا سلسلہ کس قدر شدید ہے اور اب کیلاش ستیارتھی کو دیئے گئے نوبل پرائز نے تو گویا ان تمام تلخ حقائق پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور عالمی رائے عامہ کے موثر حلقے اس صورتحال کے واضح ہونے کے بعد دہلی سرکار کے ترقی و خوشحالی کے بے بنیاد دعوؤں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ بند کرانے کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کریں گے ۔
اکتوبر 19 کو صدائے چنار میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )