Newspaper Article 26/11/2014
وزیر اعظم نواز شریف نے 18 ویں سارک سربراہ کانفرنس میں شمولیت کی خاطر نیپال پہنچنے کے بعد کہا ہے کہ اگرچہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہے مگر اس کی پہل اب بھارت کو کرنا ہو گی کیونکہ بھارت کی جانب سے ہی باہمی مذاکرات کا سلسلہ منقطع کیا گیا تھا ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے خود بھارت کے چند امن پسند دانشوروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’’ اگر واقعتا بھارت کی خواہش ہے کہ یورپی یونین اور آسیان کی مانند سارک تنظیم بھی ایک موثر علاقائی تعاون کے ادارے کو طور پر ابھرے اور اس میں بھارت کا کردار بھی خاصا موثر ہو تو کیا پاکستان کی فعال شرکت کے بغیر اس امر کے ذرہ برابر بھی امکانات موجود ہیں ؟ کسے پتہ نہیں کہ جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان ہی دو اہم ترین ممالک ہیں اور ان کے مابین باہمی بات چیت تک کا رشتہ نہیں ہو گا تو سارک کو موثر بنانے کا آخر کون سا فارمولا ہے؟‘‘
یاد رہے کہ جنوری 2002 میں جب کھٹمنڈو (نیپال) میں ہی سارک سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی ، تب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار تھے اور کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی سیٹ پر خود جا کر یک طرفہ طور پر مصافحہ کیا تھا مگر اس کے باوجود بھارتی سردمہری برقرار رہی ۔
کثیر الاشاعت ہندی روز نامے ’’ امر اجالا ‘‘کی 30 جنوری 2003 کی اشاعت میں کلدیپ نیئر کا ایک مضمون بعنوان ’’ بے اصولی پر مبنی بھارتی موقف ‘‘ شائع ہوا جس میں لکھا تھا کہ ’’ پتہ نہیں ہماری (بھارتی ) سرکار یہ کیوں دکھا رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کر کے وہ اس پر کوئی بڑا احسان کرے گی ۔‘‘
دوسری جانب موجودہ صورتحال میں بھی ایک بھارتی اخبار میں ’’ اجے شکلا ‘‘نامی ہندو دانشور کی تحریر میں بھی کہا گیا ہے کہ ۔’’ یہ رویہ اس حکومت کا ہے جس کے سربراہ مودی ہے اور جنہوں نے مئی 2014 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیر اعظم کو باقاعدہ شرکت کی دعوت تک دے ڈالی تھی اور جس میں پاکستانی وزیر اعظم بہت سے تحفظات کے باوجود شریک بھی ہوئے مگر اسی دہلی سرکار کا ذہنی دیوالیہ پن ہی کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں مودی حکومت نے نارمل تہذیب و شائستگی کا دامن بھی چھوڑ دیا اور 25 اگست کو طے شدہ خارجہ سیکرٹری مذاکرات کو یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا ۔‘‘
اس دوران پاکستانی رہنما بار بار اس خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ باہمی مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں مگر بھارتی پردھان منتری دوسرے ملکوں کے رہنماؤں سے تو آپسی بات چیت کو تو بصد شوق آمادہ ہیں مگر پاکستانی قیادت سے نہیں ملنا چاہتے۔ کسی بھی مہذب یا نارمل معاشرے میں اس بھارتی رویے کو تحقیر آمیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور پاکستان دشمنی کا یہ رویہ بالآخر خود ہندوستان کو تقصان پہنچانے کا باعث بننے کے حقیقی امکانات ہیں ۔
اس لئے بھارت سرکار کو اپنے رویے میں لچک لانی ہو گی اور اگر جنوبی ایشیائی خطے میں علاقائی تعاون کے خواب کو واقعی شرمندہ تعبیر کرنا بھارت سرکار کا مقصد ہے تو اسے جرمنی اور فرانس سے سبق حاصل کرنا ہو گا ، جنہوں نے یورپی یونین کو اس سطح تک لانے میں نہ صرف اپنی روایتی دشمنی کو خیر آباد کہا بلکہ خطے کے دو اہم ترین ملک ہونے کی حیثیت سے جرمنی اور فرانس نے ایک سے زائد مرتبہ چھوٹے پڑوسی ممالک کے حق میں اور ایک دوسرے ی خاطر بھی قربانیوں اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔
بہرکیف اگر مودی سرکار نے بدلتی ہوئی عالمی فضا کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا تو یہ اس کی عاقبت نا اندیشی ہو گی اور یہ امر بھی مسلمہ حقیقت کا حامل ہے کہ پاکستان کو چڑا کر یا اشتعال دلا کر بھارت کسی بھی طور موثر عالمی قوت بننے کا اپنا ہدف ہر گز حاصل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ تا حال تو دہلی کے حکمرانوں نے خاصا ہٹ دھرمی کا رویہ اپنا رکھا ہے اور اس طرح وہ واجپائی کی ایک نظم ’’ پربھو! (بھگوان )مجھے اتنی اونچائی مت دینا کہ میں جھک کر دوسروں کو اپنے گلے نہ لگا سکوں‘‘ کی اپنے عمل سے نفی کرتے نظرآتے ہیں ۔اور اپنے خود ساختہ اونچائی کے زعم میں زمینی حقائق کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔
بہرحال توقع کی جانی چاہیے کہ مودی اور ان کے ہمنوا ان انسان دوست بھارتی دانشوروں کے مشورے پر کان دھرتے ہوئے مثبت طرز عمل اپنائیں گے اور کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے منصفانہ حل کی خاطر ٹھوس اور نتیجہ خیز پیش رفت کریں گیاور اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ با مقصد مذاکرات کا آغاز کر کے جنوبی ایشیاء میں حقیقی تعاون کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار بہتر ڈھنگ سے آگاہ کریں گے کیونکہ پاکستان کی حکومت اور عوام تو ہمیشہ سے امن و سلامتی پر مبنی ماحول قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کرتے رہے ہیں ۔مگر اس سلسلے میں تنازعہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب نظر آنے والی پیش رفت کے بغیر جنوبی ایشیاء امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔
ستائیس نومبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )