Newspaper Article 22/02/2015
17 فروری کو بھارتی کوسٹل گارڈ کے ڈی آئی جی ’’ لوشالی ‘‘ نے انکشاف کیا کہ 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب کو بین الاقوامی سمندری حدود میں جو پاکستانی کشتی تباہ کی گئی تھی ، اسے ان کے حکم پر تباہ کیا گیا ۔انھوں نے یہ شرم ناک اعتراف انڈین ایکسپریس کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کیا اور ان کے اس بیان کی باقاعدہ ویڈیو بھی جاری کی گئی ۔ اس پر ناراض ہو کر انڈین ڈیفنس منسٹر ’’ منوہر پریارکر‘‘ نے موصوف کے خلاف انکوائری کا حکم جاری کیا ہے اور اپنا پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ کشتی میں سوار افراد نے خود اسے تباہ کیا تھا جبکہ کوسٹل گارڈ کے ڈی آئی جی ’’ لوشالی ‘‘ نے واضح کیا ہے کہ انھوں نے اپنی ماتحت فورس کو حکم دیا تھا کہ اس پاکستانی کشتی میں سوار افراد کو گرفتار کرنے کے بعد بھارتی جیلوں میں دورانِ قید ’’ بریانی ‘‘ کھلانے سے بہتر ہے کہ انھیں یہیں ختم کر دیا جائے ۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جس طرح سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف لزام تراشی کی تھی اور بعد میں خود انڈین آرمی کے افسران اس میں ملوث پائے گئے تھے ، اسی طرح اس کشتی کے واقعہ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ نہ تو دہلی سرکار کو کسی بین الاقوامی قانون کی پرواہ ہے اورنہ ہی کسی اخلاقی ضابطے کی ۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یہ انکشاف 18 فروری 2015 کو سامنے آیا جس دن آٹھ سال قبل سمجھوتا ایکسپریس کا سانحہ پیش آیا تھا۔
اسی صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ چینی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر پشاور اور شکار پور میں دہشتگردی کے واقعات اور وزیر اعظم ترکی کی پاکستان آمد پر لاہور اور اسلام آباد میں دہشتگردی کے واقعات کو اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا اور غالب امکان یہی ہے کہ اس میں بھارتی خفیہ ادارے ملوث ہیں ۔ کیونکہ انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر برملا اس امر کا عتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کرنے کے لئے وہاں موجود شدت پسند عناسر کو استعمال کرنا بھارت کی سرکاری حکمتِ عملی کا حصہ ہے ۔
غیر جانبدار حلقوں نے اس تمام پس منظر میں رائے ظاہر کی ہے کہ جب سے مودی سرکار حکومت میں آئی ہے تب سے بھارتی ذرائع اس موقف کا اظہار کر رہے ہیں کہ دہلی کی نئی سرکار نے ’’ سافٹ پاور‘‘ بننے کی پالیسی ترک کر کے ’’ سمارٹ پاور ‘‘ بننے کی حکمتِ عملی اختیار کر لی ہے جبکہ اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیں تو لگتا یہ ہے کہ در حقیقت بھارتی حکمرانوں نے ’’ اوور سمارٹ پاور ‘‘ بننے کی روش اپنا لی ہے اور اسی وجہ سے ان کے اندرونی تضادات بڑی تیزی سے کھل کر دنیا کے سامنے آ رہے ہیں ۔ اسی لئے 17 جنوری کو پہلی بار مودی کو کہنا پڑا کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور کسی اکثریتی یا اقلیتی گروپ کو مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
در اصل مودی کو اپنی یہ خاموشی عالمی میڈیا کے مسلسل دباؤ نے نتیجے میں توڑنی پڑی ہے ۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ اپنے عمل سے وہ اپنے اس دعوے کو کس حد تک ثابت کر پاتے ہیں کیونکہ اپنے اس بیان کے اگلے ہی روز یعنی 18 فروری کو موصوف نے بھارتی صوبے کرناٹک کی راجدھانی ’’ بنگلور ‘‘ میں 5 روزہ ’’ ایئر شو ‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ 5 برسوں میں بھارت اپنے یہاں دفاعی پیداوار کو دگنا کر دے گا ۔ اور اب تک تو وہ ہتھیار در آمد کرنے والے ممالک میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے مگر اگلے چند برسوں میں اپنے یہاں ہتھیار اور گولہ بارود بنانے والا سب سے بڑا ملک بننے کے ٹارگٹ کو عملی جامہ پہنائے گا اور اسی وجہ سے اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد مودی سرکار نے 26 فیصد سے بڑھا کر 49 فیصد کر دی ہے ۔
اس تناظر میں غالباً با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ ایک جانب بھارتی حکمرانوں نے پاکستان اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات کا لا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اپنے یہاں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے ناخوشگوار واقعہ کی ذمہ داری ’’ آئی ایس آئی ‘‘کے کندھوں پر ڈالنے کی مذموم روش اپنا رکھی ہے جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس اور پاکستانی کشتی تباہ کرنے اور بھارتی پارلیمنٹ پر حملے سمیت اکثر معاملات کو بعد میں خود بھارتی تفتیشی ادارے ہندوستان کی کارستانی قرار دے چکے ہیں یوں حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کے ترجمان کا یہ موقف حقیقت کے زیادہ قریب نظر آتا ہے کہ پاکستان کے اندر جاری دہشتگردی کو در حقیقت بھارتی خفیہ اداروں کی فعال سر پرستی حاصل ہے ۔
امید کی جانی چاہیے کہ ہندوستان کا حکمران ٹولہ ’’ اوور سمارٹ پاور ‘‘ بننے کی مکروہ روش ترک کر کے تعمیری طرزِ عمل اپنائے گا ۔ اور وطنِ عزیز میں جاری ’’ را ‘‘ کی کارگزاریوں کو بھی لگام ڈالنے کی کوشش کی جائے گی وگرنہ اس کے نتائج علاقائی اور عالمی امن کے لئے ناقابلِ تصور حد تک خطر ناک ثابت ہو سکتے ہیں اور اس بابت موثر عالمی قوتوں کو بھی اپنا کردار زیادہ بہتر انداز سے نبھانا ہو گا ۔
توقع رکھنی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ ہونے والے آئندہ باہمی مذاکرات کے دوران وطنِ عزیز کے مقتدر حلقے بھی غیر ضروری انکساری کی بجائے قومی وقار کا کو ملحوظِ خاطر رکھیں گے کیونکہ غالباً شاید بھارتی سرشت کو سامنے رکھ کر ہی کہا گیا ہے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
بائیس فروری کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )