Newspaper Article 10/05/2015
ہندوستان کے حکمرانوں نے بالعموم مہاتما بُدھ کے نام اور ان کی تعلیمات کو اپنے منفی عزائم کی تکمیل کی خاطر جتنا استعمال کیا ہے ، اتنا شاید دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوا ۔ یہ تو سبھی کو علم ہے کہ 18 مئی 1974 کو جب بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو اس آپریشن کو ’’ سمائلنگ بُدھا ‘‘ کا کوڈ نیم دیا ۔ ظاہر ہے اس سے بڑی ستم ظریفی کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ مہاتما بُدھ جیسی شخصیت ’’جن کی تعلیمات کو دنیا بھر میں امن و سلامتی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے‘‘ ، ایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیار کے بنانے کے عمل کو بُدھ کے نام سے منسوب کرنا غالباً اپنے آپ میں کسی ستم ظریفی سے کم نہیں ۔ اس کے بعد مودی نے غالباً یہ فیصلہ کیا کہ مہاتما بُدھ کے نام کے ذریعے سفارتی اور معاشی فوائد حاصل کیے جائیں ۔ یہ امر کسی سے پویشدہ نہیں کہ مودی نے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد بھارتی خارجہ پالیسی میں پہلے سے موجود ’’ لُک ایسٹ پالیسی ‘‘ کو ’’ ایکٹ ایسٹ ‘‘ حکمتِ عملی کا نام دیا ۔
اسی پس منظر میں چار مئی 2015 کو بُدھ کے جنم دن کے موقع پر دہلی میں ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی جسے ’’بُدھ پورنیما ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے اس امر پر زور دیا کہ جنوب مشرقی ایشیاء کے بدھ مذہب کی اکثریت رکھنے والے ملکوں کو فارن پالیسی میں خاص طور پر ’’ ٹارگٹ ‘‘ کیا جائے گا اور ان ملکوں کے ساتھ بہتر سفارتی اور اقتصادی تعلقات کے قیام کی خاطر بُدھ ازم کو بطورِ ہتھیار اور ہتھکنڈے کے استعمال کیا جائے ۔ اس موقع پر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ بالعموم کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی ایشیاء کی صدی ہے مگر بُدھ کی تعلیمات اور ان کے حوالے کے بغیر کسی بھی صورت یہ ایشیاء کی صدی نہیں بن سکتی ۔
مبصرین نے مودی سرکار کی اس حکمتِ عملی کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ یہ حکومت بُدھ دھرم کو اپنی ڈپلومیسی کے محور میں رکھ کر کام کرنا چاہتی ہے اور جنوب مشرقی ایشیاء اور مشرقِ بعید کے ملکوں اور بھارت کے مابین بُدھ کے نام کو ایک’’ کلچرل پُل (برج) ‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہاں ہے ۔
مودی کے بُدھ پریم کے پسِ پردہ محرکات کا جائزہ لیں تو پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اس سفارتی حربے کے ذریعے دہلی سرکار نہ صرف میانمر ، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، کمبوڈیا ، ویت نام اور لاؤس جیسے ممالک میں اپنی لابی قائم کرنے کی خواہش مند ہے بلکہ اس حکمتِ عملی کو چین کے مقابلے کے لئے ایک ڈپلومیٹک سٹریٹجی کے طور پر اپنانے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر ان ملکوں میں بُدھ عبادت گاہیں اور ’’ کلچرل سینٹر ‘‘ تعمیر کیے جائیں گے ۔ جس طرح چین نے دنیا کے کئی ملکوں میں کنفیوشس سنٹرز قائم کیے ہیں ۔ اس طرز کی ڈپلومیسی کے ذریعے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی حکمتِ عملی دہلی کے سرکاری حلقوں میں خاصی سنجیدگی سے زیرِ غور ہے ۔ چار مئی کو ’’ بُدھ پورنیما ‘‘ کے منتظمین میں سے ایک ’’ شیش دھر اچاریا ‘‘ ( جو ’’ بی جے پی ‘‘ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی ہیں ) کے بقول بھارت بُدھ دھرم کا فطری ٹھکانہ ہے اور بُدھ کنیکشن کو استعمال کر کے بہت بڑا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ موصوف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بُدھ ڈپلومیسی کے حوالے سے مودی سرکار کے بہت سے منصوبے ہیں ۔ بھارتی اخبار ’’ اکنامک ٹائمز ‘‘ کے مطابق ’’ شیش دھر اچاریا ‘‘ نے بتایا کہ اس حکمتِ عملی سے بھارت کو دہرا فائدہ ہو گا ۔ اس کے ذریعے خطے میں سفارتی کامیابی کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو بھی بہت بڑی تعداد میں اپنی جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے انڈین ٹورازم انڈسٹری کو فورغ ملے گا ۔ اس منصوبے کے مطابق مستقبل قریب میں بڑے عالمی رہنماؤں کو ’’ بُدھ گیا ‘‘ اور ’’ سارناتھ ‘‘ جیسے بُدھ دھرم کے مراکز پر اکٹھا کر کے علاقائی اور عالمی کانفرنسیں وغیرہ منعقد کی جائیں گی ۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں میں بالعموم بُدھ مندروں میں جانے کو معمول بنا رکھا ہے ۔ مثلاً ستمبر 2014 میں اپنی جاپان یاترا کے دوران موصوف بُدھ دھرم سے جڑے ’’ توجی ‘‘ اور ’’ کینوکا کوجی ‘‘ میں پراتھنا کی غرض سے گئے ۔ مارچ 2015 میں سری لنکا دورے کے دوران کولمبو کے ’’ مہا بُدھ ‘‘ میں موصوف نے بُدھ سنیاسیوں کے اجتماع سے خطاب کیا اور انورادھا پورہ میں مہا بُدھ درخت کے نیچے پوجا کی ۔ 14 مئی سے مودی چین ، منگولیا اور جنوبی دورے پر جا رہے ہیں ۔ اس دوران بھی ان کی بُدھ ڈپلومیسی واضح طور پر نظر آئے گی ۔
چین میں وہ صدر شی جن پنگ کے آبائی علاقے ’’ شی آن ‘‘ کا دورہ کریں گے اور اس دوران و ہ ’’ گریٹ وائلڈ گجھ پکوڈا ‘‘پر اور چینی سیاح ’’ ہان سانگ ‘‘ کے مٹھ پر بھی جا سکتے ہیں ۔پچھلے سال بھارت نے جنوبی کوریا کو ’’ بُدھ پودا بھجوایا تھا جو اب 160 سینٹی میٹر بلند ہو چکا ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ بُدھ مذہب کے سب سے بڑے مرکز ’’ ٹیکسلا ‘‘ کو پاکستان مزید بہتر ڈھنگ سے عالمی سطح پر متعارف کروا کر بھارت کی اس مہم کا موثر جواب دے سکتا ہے ۔
اسی پس منظر میں چار مئی 2015 کو بُدھ کے جنم دن کے موقع پر دہلی میں ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی جسے ’’بُدھ پورنیما ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے اس امر پر زور دیا کہ جنوب مشرقی ایشیاء کے بدھ مذہب کی اکثریت رکھنے والے ملکوں کو فارن پالیسی میں خاص طور پر ’’ ٹارگٹ ‘‘ کیا جائے گا اور ان ملکوں کے ساتھ بہتر سفارتی اور اقتصادی تعلقات کے قیام کی خاطر بُدھ ازم کو بطورِ ہتھیار اور ہتھکنڈے کے استعمال کیا جائے ۔ اس موقع پر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ بالعموم کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی ایشیاء کی صدی ہے مگر بُدھ کی تعلیمات اور ان کے حوالے کے بغیر کسی بھی صورت یہ ایشیاء کی صدی نہیں بن سکتی ۔
مبصرین نے مودی سرکار کی اس حکمتِ عملی کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ یہ حکومت بُدھ دھرم کو اپنی ڈپلومیسی کے محور میں رکھ کر کام کرنا چاہتی ہے اور جنوب مشرقی ایشیاء اور مشرقِ بعید کے ملکوں اور بھارت کے مابین بُدھ کے نام کو ایک’’ کلچرل پُل (برج) ‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہاں ہے ۔
مودی کے بُدھ پریم کے پسِ پردہ محرکات کا جائزہ لیں تو پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اس سفارتی حربے کے ذریعے دہلی سرکار نہ صرف میانمر ، سری لنکا ، تھائی لینڈ ، کمبوڈیا ، ویت نام اور لاؤس جیسے ممالک میں اپنی لابی قائم کرنے کی خواہش مند ہے بلکہ اس حکمتِ عملی کو چین کے مقابلے کے لئے ایک ڈپلومیٹک سٹریٹجی کے طور پر اپنانے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر ان ملکوں میں بُدھ عبادت گاہیں اور ’’ کلچرل سینٹر ‘‘ تعمیر کیے جائیں گے ۔ جس طرح چین نے دنیا کے کئی ملکوں میں کنفیوشس سنٹرز قائم کیے ہیں ۔ اس طرز کی ڈپلومیسی کے ذریعے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی حکمتِ عملی دہلی کے سرکاری حلقوں میں خاصی سنجیدگی سے زیرِ غور ہے ۔ چار مئی کو ’’ بُدھ پورنیما ‘‘ کے منتظمین میں سے ایک ’’ شیش دھر اچاریا ‘‘ ( جو ’’ بی جے پی ‘‘ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی ہیں ) کے بقول بھارت بُدھ دھرم کا فطری ٹھکانہ ہے اور بُدھ کنیکشن کو استعمال کر کے بہت بڑا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ موصوف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بُدھ ڈپلومیسی کے حوالے سے مودی سرکار کے بہت سے منصوبے ہیں ۔ بھارتی اخبار ’’ اکنامک ٹائمز ‘‘ کے مطابق ’’ شیش دھر اچاریا ‘‘ نے بتایا کہ اس حکمتِ عملی سے بھارت کو دہرا فائدہ ہو گا ۔ اس کے ذریعے خطے میں سفارتی کامیابی کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو بھی بہت بڑی تعداد میں اپنی جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے انڈین ٹورازم انڈسٹری کو فورغ ملے گا ۔ اس منصوبے کے مطابق مستقبل قریب میں بڑے عالمی رہنماؤں کو ’’ بُدھ گیا ‘‘ اور ’’ سارناتھ ‘‘ جیسے بُدھ دھرم کے مراکز پر اکٹھا کر کے علاقائی اور عالمی کانفرنسیں وغیرہ منعقد کی جائیں گی ۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں میں بالعموم بُدھ مندروں میں جانے کو معمول بنا رکھا ہے ۔ مثلاً ستمبر 2014 میں اپنی جاپان یاترا کے دوران موصوف بُدھ دھرم سے جڑے ’’ توجی ‘‘ اور ’’ کینوکا کوجی ‘‘ میں پراتھنا کی غرض سے گئے ۔ مارچ 2015 میں سری لنکا دورے کے دوران کولمبو کے ’’ مہا بُدھ ‘‘ میں موصوف نے بُدھ سنیاسیوں کے اجتماع سے خطاب کیا اور انورادھا پورہ میں مہا بُدھ درخت کے نیچے پوجا کی ۔ 14 مئی سے مودی چین ، منگولیا اور جنوبی دورے پر جا رہے ہیں ۔ اس دوران بھی ان کی بُدھ ڈپلومیسی واضح طور پر نظر آئے گی ۔
چین میں وہ صدر شی جن پنگ کے آبائی علاقے ’’ شی آن ‘‘ کا دورہ کریں گے اور اس دوران و ہ ’’ گریٹ وائلڈ گجھ پکوڈا ‘‘پر اور چینی سیاح ’’ ہان سانگ ‘‘ کے مٹھ پر بھی جا سکتے ہیں ۔پچھلے سال بھارت نے جنوبی کوریا کو ’’ بُدھ پودا بھجوایا تھا جو اب 160 سینٹی میٹر بلند ہو چکا ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ بُدھ مذہب کے سب سے بڑے مرکز ’’ ٹیکسلا ‘‘ کو پاکستان مزید بہتر ڈھنگ سے عالمی سطح پر متعارف کروا کر بھارت کی اس مہم کا موثر جواب دے سکتا ہے ۔
نو مئی کو پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )