Newspaper Article 29/07/2015
جب ایک سال پہلے بھارت میں مودی نے اقتدار سنبھالا تو کسی کے وہم میں بھی نہیں تھا کہ ان کے سیاسی زوال کا آغاز محض ایک برس کے اندر شروع ہو جائے گا مگر گذشتہ دو ہفتوں کے دوران نریندر مودی کی سیاسی مقبولیت کا سورج بری طرح گہنا چکا ہے اور اس ضمن میں ایک دوسرا ’’ مودی ‘‘ ظاہری سبب بنا ہے ۔ یاد رہے کہ سات برس پیشتر جب انڈین کرکٹ کی پرئمیر لیگ کا آغاز ہوا تو اس کے بانی سربراہ ’’ للت مودی ‘‘ نام کے ایک بھارتی سرمایہ کار تھے ۔ انچاس سالہ یہ شخص جوڑ توڑ کے معاملے میں خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے ۔ اسی وجہ سے اس نے ’’ آئی پی ایل ‘‘ کو پوری دنیائے کرکٹ میں ایک نیا ایونٹ بنا دیا ۔ ابتدائی تین سال تک موصوف ’’ آئی پی ایل ‘‘ کے کمشنر رہے ۔ پھر 2010 میں جب ان پر کرپشن کے بہت سے الزامات لگے تو یہ فرار ہو کر لندن میں جا بیٹھے ۔
پچھلے دس پندرہ دن میں موصوف نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت سے ان کے فرار ہونے میں ’’ بی جے پی ‘‘ کے کئی لیڈروں نے معاونت کی تھی جن میں بھارت کی موجودہ وزیر خارجہ ’’ سشما سوراج ‘‘ سرِ فہرست ہیں بلکہ انہوں نے تو ’’ نریندر مودی ‘‘ کی حکومت بننے کے بعد جولائی 2014 میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ’’ للت مودی ‘‘ کو ضبط شدہ پاسپورٹ واپس دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کے علاوہ سشما سوراج نے اپنے عہدے اور منصب کا استعمال کرتے ہوئے ’’ للت مودی ‘‘ کو برطانیہ سے پرتگال جانے کا اجازت نامہ دلوایا اور اس ضمن میں یہ عذر تراشا گیا کہ للت مودی کی بیوی ’’ مینال مودی ‘‘ کا کینسر کا مرض انتہائی خطرناک مرحلے میں ہے اور اس کا فوری آپریشن پرتگال میں ہی ممکن ہے ۔ یوں اس چیز کی آڑ لے کر وہ دونوں میاں بیوی لندن سے پرتگال پہنچے اور اب پورے یورپ کی سیر کرتے پھر رہے ہیں ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے اختیارات کا یہ استعمال محض کسی مروت یا انسانی ہمدردی کے تحت نہیں کیا بلکہ موصوفہ کے شوہر ’’ کوشل سوراج ‘‘ اور ان کی اکلوتی بیٹی ’’ بانسری سوراج ‘‘ للت مودی کی فرم میں بہت بڑے معاوضے پر ملازم تھے اور اسی وجہ سے سشما نے مالی فوائد کے پیشِ نظر بھگوڑے مودی کی مدد کی ۔
راجستھان کی موجودہ وزیر اعلیٰ اور ’’ بی جے پی ‘‘ کی اہم خاتون رہنما ’’ وسوندھرا راجے سندھیا ‘‘ بھی للت مودی کے مدد گاروں میں سرِ فہرست ہیں کیونکہ مودی نے ان کے اکلوتے بیٹے ’’ دشینت سنگھ ‘‘ کی کمپنی کے حصص ( جن کی مارکیٹ قیمت فی شیئر دس روپے تھے) مگر مودی نے 96000 روپے فی شیئر کے حساب سے 800 شیئرز خریدے اس کے علاوہ ’’ وسوندھرا راجے ‘‘ نے جے پور اور دھول پور میں سینکڑوں ایکڑ سرکاری اراضی اور سرکاری محلات ’’ مودی ‘‘ کی فرم ’’ ہیری ٹیج ہوٹلز ‘‘ کو سونپ دی جس پر مودی نے فائیو سٹار ہوٹل بنا لیے ۔ جانکار حلقوں کے نزدیک ان دونوں کی قربت کا یہ عالم تھا کہ ’’ للت مودی ‘‘ ، وسوندھرا کی موجودگی میں میز پر دونوں پاؤں ٹکا کر بیٹھا کرتے تھے ۔
نریندر مودی کا سر درد بننے والی تیسری شخصیت بھی ’’ بی جے پی ‘‘ کی ایک خاتون رہنما ہیں جو بھارت کی مرکزی وزیر برائے ہیومن ریسورسز و تعلیم ہیں ۔ موصوفہ کا نام ’’ سمرتی ایرانی ‘‘ ہے ۔ انتالیس سالہ یہ خاتون 1998 میں ’’ مس انڈیا ‘‘ کے مقابلہ حسن میں فائنل سٹیج تک پہنچی تھیں ۔ اس کے ساتھ وہ سٹار پلس کے مشہور ڈرامے ’’ ساس بھی کبھی بہو تھی ‘‘ کا مرکزی کردار تھی ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ۔ نریندر مودی ، موصوفہ کو اپنی منہ بولی بہن قرار دیتے ہیں ۔ اس خاتون نے 2004 ، 2009 اور 2014 کے الیکشن میں حصہ لیتے وقت اپنی جو تعلیم ظاہر کی وہ سراسر تضادات کا مجموعہ ہے ۔ کہیں وہ خود کو دسویں پاس بتاتی ہیں تو کہیں کامرس گریجویٹ اور کہیں اوپن یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ ۔ ان کی اس جعل سازی کی وجہ سے مودی پر دباؤ ہے کہ انہیں وزارت سے برطرف کیا جائے۔
مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والی ایک اور شخصیت جو بھی حسنِ اتفاق سے خاتون ’’ پنکج منڈے ‘‘ ہیں جو ’’ بی جے پی ‘‘ کے سابقہ رہنما ’’ گوپی ناتھ منڈے ‘‘ کی صاحبزادی ہیں اور مہاراشٹرکابینہ میں وزیر ہیں ۔ اس نوجوان خاتون پر الزام ہے کہ دو ہفتے قبل موصوفہ نے محض آدھے گھنٹے کے اندر 206 کروڑ روپے کے ٹھیکے بنا کسی ٹینڈر کے اپنے من پسند ٹھیکے داروں کو دے دیے ۔
مندرجہ بالا الزامات کے علاوہ بھی مودی کے ساتھیوں پر کرپشن کے بہت سارے الزامات سامنے آ رہے ہیں لیکن ان کی سیاسی مقبولیت کو اصل دھچکا ’’ للت مودی ‘‘ نے پہنچایا ہے اور آنے والے دنوں میں مودی کی سیاست مزید زوال پذیر ہونے کے حقیقی امکانات موجود ہیں ۔
پچھلے دس پندرہ دن میں موصوف نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت سے ان کے فرار ہونے میں ’’ بی جے پی ‘‘ کے کئی لیڈروں نے معاونت کی تھی جن میں بھارت کی موجودہ وزیر خارجہ ’’ سشما سوراج ‘‘ سرِ فہرست ہیں بلکہ انہوں نے تو ’’ نریندر مودی ‘‘ کی حکومت بننے کے بعد جولائی 2014 میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ’’ للت مودی ‘‘ کو ضبط شدہ پاسپورٹ واپس دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کے علاوہ سشما سوراج نے اپنے عہدے اور منصب کا استعمال کرتے ہوئے ’’ للت مودی ‘‘ کو برطانیہ سے پرتگال جانے کا اجازت نامہ دلوایا اور اس ضمن میں یہ عذر تراشا گیا کہ للت مودی کی بیوی ’’ مینال مودی ‘‘ کا کینسر کا مرض انتہائی خطرناک مرحلے میں ہے اور اس کا فوری آپریشن پرتگال میں ہی ممکن ہے ۔ یوں اس چیز کی آڑ لے کر وہ دونوں میاں بیوی لندن سے پرتگال پہنچے اور اب پورے یورپ کی سیر کرتے پھر رہے ہیں ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے اختیارات کا یہ استعمال محض کسی مروت یا انسانی ہمدردی کے تحت نہیں کیا بلکہ موصوفہ کے شوہر ’’ کوشل سوراج ‘‘ اور ان کی اکلوتی بیٹی ’’ بانسری سوراج ‘‘ للت مودی کی فرم میں بہت بڑے معاوضے پر ملازم تھے اور اسی وجہ سے سشما نے مالی فوائد کے پیشِ نظر بھگوڑے مودی کی مدد کی ۔
راجستھان کی موجودہ وزیر اعلیٰ اور ’’ بی جے پی ‘‘ کی اہم خاتون رہنما ’’ وسوندھرا راجے سندھیا ‘‘ بھی للت مودی کے مدد گاروں میں سرِ فہرست ہیں کیونکہ مودی نے ان کے اکلوتے بیٹے ’’ دشینت سنگھ ‘‘ کی کمپنی کے حصص ( جن کی مارکیٹ قیمت فی شیئر دس روپے تھے) مگر مودی نے 96000 روپے فی شیئر کے حساب سے 800 شیئرز خریدے اس کے علاوہ ’’ وسوندھرا راجے ‘‘ نے جے پور اور دھول پور میں سینکڑوں ایکڑ سرکاری اراضی اور سرکاری محلات ’’ مودی ‘‘ کی فرم ’’ ہیری ٹیج ہوٹلز ‘‘ کو سونپ دی جس پر مودی نے فائیو سٹار ہوٹل بنا لیے ۔ جانکار حلقوں کے نزدیک ان دونوں کی قربت کا یہ عالم تھا کہ ’’ للت مودی ‘‘ ، وسوندھرا کی موجودگی میں میز پر دونوں پاؤں ٹکا کر بیٹھا کرتے تھے ۔
نریندر مودی کا سر درد بننے والی تیسری شخصیت بھی ’’ بی جے پی ‘‘ کی ایک خاتون رہنما ہیں جو بھارت کی مرکزی وزیر برائے ہیومن ریسورسز و تعلیم ہیں ۔ موصوفہ کا نام ’’ سمرتی ایرانی ‘‘ ہے ۔ انتالیس سالہ یہ خاتون 1998 میں ’’ مس انڈیا ‘‘ کے مقابلہ حسن میں فائنل سٹیج تک پہنچی تھیں ۔ اس کے ساتھ وہ سٹار پلس کے مشہور ڈرامے ’’ ساس بھی کبھی بہو تھی ‘‘ کا مرکزی کردار تھی ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ۔ نریندر مودی ، موصوفہ کو اپنی منہ بولی بہن قرار دیتے ہیں ۔ اس خاتون نے 2004 ، 2009 اور 2014 کے الیکشن میں حصہ لیتے وقت اپنی جو تعلیم ظاہر کی وہ سراسر تضادات کا مجموعہ ہے ۔ کہیں وہ خود کو دسویں پاس بتاتی ہیں تو کہیں کامرس گریجویٹ اور کہیں اوپن یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ ۔ ان کی اس جعل سازی کی وجہ سے مودی پر دباؤ ہے کہ انہیں وزارت سے برطرف کیا جائے۔
مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والی ایک اور شخصیت جو بھی حسنِ اتفاق سے خاتون ’’ پنکج منڈے ‘‘ ہیں جو ’’ بی جے پی ‘‘ کے سابقہ رہنما ’’ گوپی ناتھ منڈے ‘‘ کی صاحبزادی ہیں اور مہاراشٹرکابینہ میں وزیر ہیں ۔ اس نوجوان خاتون پر الزام ہے کہ دو ہفتے قبل موصوفہ نے محض آدھے گھنٹے کے اندر 206 کروڑ روپے کے ٹھیکے بنا کسی ٹینڈر کے اپنے من پسند ٹھیکے داروں کو دے دیے ۔
مندرجہ بالا الزامات کے علاوہ بھی مودی کے ساتھیوں پر کرپشن کے بہت سارے الزامات سامنے آ رہے ہیں لیکن ان کی سیاسی مقبولیت کو اصل دھچکا ’’ للت مودی ‘‘ نے پہنچایا ہے اور آنے والے دنوں میں مودی کی سیاست مزید زوال پذیر ہونے کے حقیقی امکانات موجود ہیں ۔
تین جولائی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )