Newspaper Article 23/08/2015
اس حقیقت سے تو سبھی با خبر حلقے آگاہ ہیں کہ گذشتہ پندرہ ماہ سے بھارت کی خارجہ پالیسی پر پوری طرح سے ’’ را ‘‘ اور انڈین آئی بی کا قبضہ ہے ۔ خود ساختہ جیمز بانڈ ’’اجیت ڈووال‘‘ اور ان کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’ ڈاکٹر اروند گپتا کے تحت بھارتی فارن پالیسی تشکیل پا رہی ہے اور اس میں معاونت کے فرائض انڈین آرمی کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ ( جو وزیر مملکت برائے خارجہ امور ہیں اور جنہوں نے پاکستان کے خلاف انڈین آرمی کا خاص یونٹ ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ تشکیل دیا ) انجام دے رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے بائیس اگست کی سہ پہر جب سشما سوراج نے پریس کانفرنس کے نام پر ایک گھنٹے تک لایعنی اور دلائل سے عاری گفتگو کی تو اس کی دھجیاں خود کئی بھارتی صحافیوں نے بھی اڑائیں ۔ اور ان سے خاصے چبھتے ہوئے سوالات کیے گئے مثلاً ’’ آج تک ‘‘ نیوز چینل کی نمائندہ موسمی اور ’’ نو بھارت ٹائمز کے نمائندے نے پوچھا کہ شملہ معاہدے کو تو 43 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اس کے بعد خود واجپائی کے دور میں تمام پاکستانی رہنما حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات کرتے رہے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اٹل بہاری واجپائی غلط تھے ؟ ۔
اس پر موصوفہ کھسیا کر رہ گئیں اور جواب دینے سے انکار کر دیا ۔ان کی بد حواسی کا عالم یہ تھا کہ وہ بار بار یہ کہتی رہیں کہ ممبئی دہشتگردی 26 نومبر 2006 کو ہوئی جبکہ در حقیقت ممبئی کے واقعات 2008 میں پیش آئے تھے ۔ بھارت کے کئی صحافیوں اور با خبر غیر ملکی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ سشما سوراج کی اڑی اڑی سی رنگت اور بے ربط گفتگو اس امر کا مظہر تھی کہ وہ ابھی تک ان الزامات کے اثر سے باہر نہیں نکل پائیں جو گذشتہ دو ماہ سے بھارتی اپوزیشن مالیاتی کرپشن کے حوالے سے ان پر لگا رہی ہیں اور ان کے استعفے کے مطالبے کی وجہ سے بھارتی پارلیمنٹ کے تیئس روزہ مون سون اجلاس میں ایک گھنٹے کا کام بھی نہیں ہو سکا ۔ یاد رہے کہ ان کے شوہر ’’ کوشل سوراج ‘‘ اور موصوفہ کی اکلوتی اولاد ’’ بانسری سوراج ‘‘ کے خلاف دستاویزی ثبوت ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے ارب پتی کاروباری اور انڈین پرئیمر لیگ کرکٹ کے بانی چیئر مین ’’ للت مودی ‘‘ کی بد عنوانی پر پردہ ڈالنے کے لئے کروڑوں روپے کی رشوت لی ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سشما سوراج کے شوہر اور ان کی بیٹی ’’ للت مودی ‘‘ کی کاروباری فرم میں بحیثیت قانونی مشیر تعینات ہیں اور موصوفہ نے خود بھی للت مودی کو لندن سے پرتگال فرار ہونے کے لئے برطانوی حکومت کو بحیثیت وزیر خارجہ جولائی 2014 میں ایک تحریری خط لکھا ۔
ایک بھارتی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے ’’ منوج جوشی‘‘ نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے پوری کانفرنس کے دوران جس طرح پاکستان کے حوالے سے کپوزٹ ڈائیلاگ ، وارتا اور بات چیت کے الفاظ کی تکرار کی ، ایسی غیر منطقی اور بے سر و پا گفتگو بہت کم سننے میں آئی ہے اور مودی اور ان کے ساتھیوں نے جس طرح اپنی حرکتوں سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر دوبارہ زندہ کر دیا ہے تو شاید ایسی صورتحال کے لئے کسی شاعر نے کہا ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ؟
کانگرس کے ترجمان اور سابق بھارتی وزیر اطلاعات ’’ منیش تیواڑی ‘ ‘ کے بقول مودی سرکار نے پوری دنیا میں بھارتی خارجہ پالیسی کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ایک دوسرے بھارتی دانشور نے مودی اور سشما سوراج کے موقف کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ فراز نے شاید مودی جیسے ہی کسی عاقبت نا اندیش کو مشورہ دیا تھا کہ
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
دوسری جانب قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جس مدلل انداز میں پاکستان کے موقف کا اجاگر کیا اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے ۔ اور پاکستان کے اس دو ٹوک اور متوازن طرزِ عمل نے وطنِ عزیز کے اندر اور بیرونی دنیا میں نہ صرف پاکستان کا وقار بلند کیا ہے بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل کی اہمیت سے بین الاقوامی برادری کو احسن ڈھنگ سے آگاہ کر دیا ہے ۔
امید کی جانی چاہیے کہ پاکستانی حکومت اور تمام مقتدر حلقے آنے والے دنوں میں بھی اس اصولی موقف پر قائم رہیں گے اور بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے قومی عزتِ نفس کا خیال رکھیں گے اور آئندہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عالمی سطح پر پاکستان میں ’’ را ‘‘ کی مداخلت اور تنازعہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو خاطر خواہ انداز سے اجاگر کیا جائے گا اور موجودہ کامیابی پر مطمئن ہو کر بیٹھنے کی بجائے تمام دوست ملکوں کو پوری طرح سے اعتماد میں لیا جائے گا اور آئندہ کسی بھی علاقائی اور عالمی سطح پر معاملات طے کرتے ہوئے ’’ اوفا ‘‘ کے تجربے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں نسبتاً زیادہ محتاط طرزِ عمل اختیار کیا جائے گا ۔چوبیس اگست کو روزنامہ پاکستان اور نوائے وقت میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )
اس پر موصوفہ کھسیا کر رہ گئیں اور جواب دینے سے انکار کر دیا ۔ان کی بد حواسی کا عالم یہ تھا کہ وہ بار بار یہ کہتی رہیں کہ ممبئی دہشتگردی 26 نومبر 2006 کو ہوئی جبکہ در حقیقت ممبئی کے واقعات 2008 میں پیش آئے تھے ۔ بھارت کے کئی صحافیوں اور با خبر غیر ملکی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ سشما سوراج کی اڑی اڑی سی رنگت اور بے ربط گفتگو اس امر کا مظہر تھی کہ وہ ابھی تک ان الزامات کے اثر سے باہر نہیں نکل پائیں جو گذشتہ دو ماہ سے بھارتی اپوزیشن مالیاتی کرپشن کے حوالے سے ان پر لگا رہی ہیں اور ان کے استعفے کے مطالبے کی وجہ سے بھارتی پارلیمنٹ کے تیئس روزہ مون سون اجلاس میں ایک گھنٹے کا کام بھی نہیں ہو سکا ۔ یاد رہے کہ ان کے شوہر ’’ کوشل سوراج ‘‘ اور موصوفہ کی اکلوتی اولاد ’’ بانسری سوراج ‘‘ کے خلاف دستاویزی ثبوت ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے ارب پتی کاروباری اور انڈین پرئیمر لیگ کرکٹ کے بانی چیئر مین ’’ للت مودی ‘‘ کی بد عنوانی پر پردہ ڈالنے کے لئے کروڑوں روپے کی رشوت لی ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سشما سوراج کے شوہر اور ان کی بیٹی ’’ للت مودی ‘‘ کی کاروباری فرم میں بحیثیت قانونی مشیر تعینات ہیں اور موصوفہ نے خود بھی للت مودی کو لندن سے پرتگال فرار ہونے کے لئے برطانوی حکومت کو بحیثیت وزیر خارجہ جولائی 2014 میں ایک تحریری خط لکھا ۔
ایک بھارتی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے ’’ منوج جوشی‘‘ نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے پوری کانفرنس کے دوران جس طرح پاکستان کے حوالے سے کپوزٹ ڈائیلاگ ، وارتا اور بات چیت کے الفاظ کی تکرار کی ، ایسی غیر منطقی اور بے سر و پا گفتگو بہت کم سننے میں آئی ہے اور مودی اور ان کے ساتھیوں نے جس طرح اپنی حرکتوں سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر دوبارہ زندہ کر دیا ہے تو شاید ایسی صورتحال کے لئے کسی شاعر نے کہا ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ؟
کانگرس کے ترجمان اور سابق بھارتی وزیر اطلاعات ’’ منیش تیواڑی ‘ ‘ کے بقول مودی سرکار نے پوری دنیا میں بھارتی خارجہ پالیسی کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ایک دوسرے بھارتی دانشور نے مودی اور سشما سوراج کے موقف کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ فراز نے شاید مودی جیسے ہی کسی عاقبت نا اندیش کو مشورہ دیا تھا کہ
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
دوسری جانب قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جس مدلل انداز میں پاکستان کے موقف کا اجاگر کیا اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے ۔ اور پاکستان کے اس دو ٹوک اور متوازن طرزِ عمل نے وطنِ عزیز کے اندر اور بیرونی دنیا میں نہ صرف پاکستان کا وقار بلند کیا ہے بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل کی اہمیت سے بین الاقوامی برادری کو احسن ڈھنگ سے آگاہ کر دیا ہے ۔
امید کی جانی چاہیے کہ پاکستانی حکومت اور تمام مقتدر حلقے آنے والے دنوں میں بھی اس اصولی موقف پر قائم رہیں گے اور بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے قومی عزتِ نفس کا خیال رکھیں گے اور آئندہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عالمی سطح پر پاکستان میں ’’ را ‘‘ کی مداخلت اور تنازعہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو خاطر خواہ انداز سے اجاگر کیا جائے گا اور موجودہ کامیابی پر مطمئن ہو کر بیٹھنے کی بجائے تمام دوست ملکوں کو پوری طرح سے اعتماد میں لیا جائے گا اور آئندہ کسی بھی علاقائی اور عالمی سطح پر معاملات طے کرتے ہوئے ’’ اوفا ‘‘ کے تجربے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں نسبتاً زیادہ محتاط طرزِ عمل اختیار کیا جائے گا ۔چوبیس اگست کو روزنامہ پاکستان اور نوائے وقت میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )