Newspaper Article 01/10/2018
پانچ ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ایک بار پھر ’’ڈو مور ‘‘کی راگنی الاپی ، دوسری طرف ٹو پلس ٹو مذاکرات کے نام پر ہندوستانی وزیرخارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کے ساتھ ملاقات کے بعد جنگی ہتھیاروں کی خریداری کے بہت بڑے معاہدے پر دستخط کیے۔ مبصرین کے مطابق یہ بھارتی اور امریکی روش نئی تو نہیں البتہ اسے انتہائی افسوس ضرور قرار دیا جانا چاہیے۔ تبھی تو وزیراعظم پاکستان اور پاک افواج کے سپہ سالار نے یومِ دفاع کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں اپنے خطاب کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان نے راہِ امن میں 70 ہزار سے زائد جانوں کی جو قربانی پیش کی ، وہ عالمی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے اور آپریشن رد الفساد کے مقاصد کے حصول کے لئے تاحال پاکستان کی سعی جاری و ساری ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی فرد یا گروہ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرائے تو اسے ان کے ذہنی دیوالیہ پن سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اس سارے معاملے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے برملا اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے ضمن جو مثبت کردارنبھایا، وہ ایسا کھلا راز ہے کہ جس کی حقانیت کی بابت شاید کوئی بھی باشعور امریکی حلقہ چنداں انکار نہیں کر سکتا۔ اگرچہ اس معاملے کا یہ ایک الگ پہلو ہے کہ جواب میں واشنگٹن نے جو کچھ کیا اس کے لئے شاید احسان فراموشی کے الفاظ بھی بہت ہلکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ بات خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ ایک جانب امریکی صدر ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اور متعدد بار پاکستان کے خلاف وہ لب و لہجہ اختیار کیا جس کی مثال اس سے قبل کم ہی ملتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے امریکہ کیساتھ باہمی تعلقات غالباً کم ترین سطح پر آچکے ہیں اور امریکہ لگاتار پاکستان کے خلاف تمام مروجہ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس پر بجا طور پر وزیراعظم سمیت عسکری اور سیاسی حلقوں نے مشترکہ طور پر ایک ٹھوس موقف اختیار کیا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ امریکی صدر ’’ٹرمپ‘‘ اور مودی نے مختلف اوقات میں پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا، اس کے پس منظر سے بھلا کون آگاہ نہیں۔ تبھی تو وقتاً فوقتاً مختلف امن پسند حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف ساری دنیا کوکرنا چاہیے۔یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ یوں تو بھارتی حکمران اپنے قیام کے روز اول سے ہی اپنے سبھی ہمسایوں سے بالعموم اور پاکستان کے ضمن میں خاص طور پر اعلانیہ معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور اپنی اس منفی ذہنیت کا مظاہرہ آئے روز کسی نہ کسی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق امریکہ اور بھارت کے طرزعمل سے جنوبی ایشیاء کی پہلے سے کشیدہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے جس سے خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کی اہم وجوہات کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اسے عالمی امن کی بد قسمتی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ بھارت،اسرائیل اور کچھ امریکی حلقے تسلسل کے ساتھ وطن عزیز کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کی بجائے ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ اصل حقائق اس بھارتی، امریکی اور اسرائیلی پراپیگنڈے سے مختلف ہی نہیں بلکہ قطعاً متضاد ہیں اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ را، این ڈی ایس، موساد اور سی آئی اے پاکستان کے اندر تخریب کاری کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں اور اس ضمن میں ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جس کا تصور بھی کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہونا چاہیے۔
مختلف حلقوں نے امریکی وفد کے حالیہ دورہ ہند کے دوران بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیاروں کے معاہدے کو بھی اسی سلسلے کی کڑی بتاتے کہا ہے کہ مودی اور واشنگٹن نے ہتھیار اور اسلحہ کی خریداری کے جو بڑے بڑے معائدے کیے ہیں ان کا سیدھا مقصد ہی بھارت کے جنگی عزائم کی معاونت ہے۔ حالانکہ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جری افواج نے بیتے چند برسوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے جو شبانہ روز قربانیاں دیں، ان کا معترف ہر ذی شعور ہے۔ اس بدیہی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 7000 سے زائد افسر و جوان اپنی جانیں وطن کی حفاظت کے لئے نثار کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ لگ بھگ 65000 سویلین پاکستانی شہری لقمہ اجل بنے۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ پوری عالمی برادری اس امر کا اعتراف کرتی اور وطن عزیز کی قربانیوں کو خاطر خواہ ڈھنگ سے سراہا جاتا مگر عملاً اس کے الٹ ہو رہا ہے اور الٹا پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ گویا
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں‘ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر، نہ لٹاتا گھر کو میں
یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ٹرمپ، مودی اور کابل انتظامیہ نے ڈو مور کی گردان کو اپنا دُم چھلا بنا رکھا ہے اور اٹھتے بیٹھتے اسی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ’’کلبھوشن یادو ‘‘ جیسے دہشتگرد کی گرفتاری کے بعد بھی اگر دہلی اور این ڈی ایس اپنی پارسائی کے دعوے سے باز نہ آئیں تو اسے جنوبی ایشیاء کی بد قسمتی کے علاوہ بھلا دوسرا نام کیا دیا جا سکتا ہے اور پھر ابھی کچھ عرصہ قبل افغان صوبے غزنی میں ہونے والی دہشتگردی کو جس انداز میں پاکستان کے سر مُونڈھنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے اس کی تو مذمت کرنے کے لئے بھی الفاظ ڈھونڈ پانا خاصا دل گردے کا کام ہے ۔ مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں اور کابل انتطامیہ پر کہ اپنی شرانگیزیوں پر بجائے نادم ہونے کے وہ اپنی چالبازیوں سے باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔بقول شاعر
حرف دروغ غالب شہر خدا ہوا
شعروں میں ذکر حرف صداقت کریں تو کیا
دوسری جانب نہتے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مگر عالمی برادری کا ضمیر ہے کہ جاگنے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں عالمی برادری اپنی وقتی مصلحتوں کو خیرباد کہہ کر اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی ۔
آٹھ ستمبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا
اس سارے معاملے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے برملا اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے ضمن جو مثبت کردارنبھایا، وہ ایسا کھلا راز ہے کہ جس کی حقانیت کی بابت شاید کوئی بھی باشعور امریکی حلقہ چنداں انکار نہیں کر سکتا۔ اگرچہ اس معاملے کا یہ ایک الگ پہلو ہے کہ جواب میں واشنگٹن نے جو کچھ کیا اس کے لئے شاید احسان فراموشی کے الفاظ بھی بہت ہلکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ بات خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ ایک جانب امریکی صدر ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اور متعدد بار پاکستان کے خلاف وہ لب و لہجہ اختیار کیا جس کی مثال اس سے قبل کم ہی ملتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے امریکہ کیساتھ باہمی تعلقات غالباً کم ترین سطح پر آچکے ہیں اور امریکہ لگاتار پاکستان کے خلاف تمام مروجہ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس پر بجا طور پر وزیراعظم سمیت عسکری اور سیاسی حلقوں نے مشترکہ طور پر ایک ٹھوس موقف اختیار کیا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ امریکی صدر ’’ٹرمپ‘‘ اور مودی نے مختلف اوقات میں پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا، اس کے پس منظر سے بھلا کون آگاہ نہیں۔ تبھی تو وقتاً فوقتاً مختلف امن پسند حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف ساری دنیا کوکرنا چاہیے۔یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ یوں تو بھارتی حکمران اپنے قیام کے روز اول سے ہی اپنے سبھی ہمسایوں سے بالعموم اور پاکستان کے ضمن میں خاص طور پر اعلانیہ معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور اپنی اس منفی ذہنیت کا مظاہرہ آئے روز کسی نہ کسی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق امریکہ اور بھارت کے طرزعمل سے جنوبی ایشیاء کی پہلے سے کشیدہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے جس سے خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کی اہم وجوہات کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اسے عالمی امن کی بد قسمتی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ بھارت،اسرائیل اور کچھ امریکی حلقے تسلسل کے ساتھ وطن عزیز کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کی بجائے ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ اصل حقائق اس بھارتی، امریکی اور اسرائیلی پراپیگنڈے سے مختلف ہی نہیں بلکہ قطعاً متضاد ہیں اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ را، این ڈی ایس، موساد اور سی آئی اے پاکستان کے اندر تخریب کاری کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں اور اس ضمن میں ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جس کا تصور بھی کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہونا چاہیے۔
مختلف حلقوں نے امریکی وفد کے حالیہ دورہ ہند کے دوران بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیاروں کے معاہدے کو بھی اسی سلسلے کی کڑی بتاتے کہا ہے کہ مودی اور واشنگٹن نے ہتھیار اور اسلحہ کی خریداری کے جو بڑے بڑے معائدے کیے ہیں ان کا سیدھا مقصد ہی بھارت کے جنگی عزائم کی معاونت ہے۔ حالانکہ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جری افواج نے بیتے چند برسوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے جو شبانہ روز قربانیاں دیں، ان کا معترف ہر ذی شعور ہے۔ اس بدیہی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 7000 سے زائد افسر و جوان اپنی جانیں وطن کی حفاظت کے لئے نثار کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ لگ بھگ 65000 سویلین پاکستانی شہری لقمہ اجل بنے۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ پوری عالمی برادری اس امر کا اعتراف کرتی اور وطن عزیز کی قربانیوں کو خاطر خواہ ڈھنگ سے سراہا جاتا مگر عملاً اس کے الٹ ہو رہا ہے اور الٹا پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ گویا
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں‘ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر، نہ لٹاتا گھر کو میں
یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ٹرمپ، مودی اور کابل انتظامیہ نے ڈو مور کی گردان کو اپنا دُم چھلا بنا رکھا ہے اور اٹھتے بیٹھتے اسی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ’’کلبھوشن یادو ‘‘ جیسے دہشتگرد کی گرفتاری کے بعد بھی اگر دہلی اور این ڈی ایس اپنی پارسائی کے دعوے سے باز نہ آئیں تو اسے جنوبی ایشیاء کی بد قسمتی کے علاوہ بھلا دوسرا نام کیا دیا جا سکتا ہے اور پھر ابھی کچھ عرصہ قبل افغان صوبے غزنی میں ہونے والی دہشتگردی کو جس انداز میں پاکستان کے سر مُونڈھنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے اس کی تو مذمت کرنے کے لئے بھی الفاظ ڈھونڈ پانا خاصا دل گردے کا کام ہے ۔ مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں اور کابل انتطامیہ پر کہ اپنی شرانگیزیوں پر بجائے نادم ہونے کے وہ اپنی چالبازیوں سے باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔بقول شاعر
حرف دروغ غالب شہر خدا ہوا
شعروں میں ذکر حرف صداقت کریں تو کیا
دوسری جانب نہتے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مگر عالمی برادری کا ضمیر ہے کہ جاگنے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں عالمی برادری اپنی وقتی مصلحتوں کو خیرباد کہہ کر اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی ۔
آٹھ ستمبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)