Newspaper Article 25/05/2017
بھارت میں اب تک ’’ کاؤ بیلٹ ‘‘ ہی حکمران رہی ہے اور ساؤتھ انڈیا کے پانچوں صوبوں’’ تامل ناڈو ‘‘ ، ’’ کیرالہ ‘‘ ، ’’ آندھرا پردیش ‘‘ ، ’’ تلنگانہ ‘‘ اور ’’ کرناٹک ‘‘ کے حصے میں کبھی اصل حکومت نہیں آئی ۔
مغربی ہندوستان ’’ مہاراشٹر ‘‘ ، ’’ گجرات ‘‘ ، ’’ گوا ‘‘ ۔
مشرقی ہندوستان مغربی بنگال ، آسام ، میزورام ، میگھالہ ، ناگا لینڈ ، سکم ، ارونا چل پردیش ( مقبوضہ ) ، تری پورہ ، اڑیسہ ۔
ہماچل پردیش ، پنجاب ، ہریانہ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، اتر پردیش ، بہار ، جھارکھنڈ ، مقبوضہ کشمیر ، اترا کھنڈ ، منی پور
یونین ٹیر ٹریز انڈیمان نکو بار ، دہلی ، پانڈی چری ، دمن دیو ، دادر نگر حویلی ، لکش دیپ ، چندی گڑھ ۔
مغربی ہندوستان ’’ مہاراشٹر ‘‘ ، ’’ گجرات ‘‘ ، ’’ گوا ‘‘ ۔
مشرقی ہندوستان مغربی بنگال ، آسام ، میزورام ، میگھالہ ، ناگا لینڈ ، سکم ، ارونا چل پردیش ( مقبوضہ ) ، تری پورہ ، اڑیسہ ۔
ہماچل پردیش ، پنجاب ، ہریانہ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، اتر پردیش ، بہار ، جھارکھنڈ ، مقبوضہ کشمیر ، اترا کھنڈ ، منی پور
یونین ٹیر ٹریز انڈیمان نکو بار ، دہلی ، پانڈی چری ، دمن دیو ، دادر نگر حویلی ، لکش دیپ ، چندی گڑھ ۔
اگرچہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت میں جمہوریت برائے نام ہے البتہ اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہاں پر وقتِ مقررہ پر الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے لہذا اسے الیکٹورل ڈیموکریسی کا نام تو دیا ہی جا سکتا ہے ۔
یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت عالمی برادری کے سامنے اپنا سافٹ امیج برقرار رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور فلم انڈسٹری کا موثر استعمال کیا ہے ۔
ہندو دھرم کو مذہب کہنا درست نہیں ، کیونکہ ہندو دھرم در حقیقت ایک ’’ ثقافتی کلچر ‘‘ ہے ۔ اور یہ اس طرح سے معروف معنوں میں لفظ ’’ مذہب ‘‘ کی مسلمہ تعریف ( ڈیفینیشن ) پر پورا نہیں اترتا ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہی اس کی کمزوری ہے جبکہ بعض کچھ کے نزدیک یہی اس کی طاقت ہے ۔ کیونکہ اکثرحلقوں کے نزدیک اس کی طاقت یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک مذہب نہیں اس لئے یہ وقت کی ضرورت کے مطابق ڈھل جاتا ہے کیونکہ یہ ثقافت، کلچر اور چند مذہبی روایات کا مجموعہ ہے ۔
مگر پچھلے تقریباً ایک سو سال سے ( جب سے آر ایس ایس وجود میں آئی ہے ) اس کو زبردستی مذہب کے سانچے میں ڈھالنے کی سعی کی جا رہی ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کے پیشِ نظر گذشتہ نوے برسوں سے ’’ ہندو توا ‘‘ کی فلاسفی نئے سرے سے وجود میں آئی ہے اور ’’ ہندو نیشنل ازم ‘‘ کی بنیاد پر آر ایس ایس اور اس کے ہم خیال مذہبی گروہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر سعی کر رہے ہیں۔ اور وقتی طور پر بظاہر ان کو خاصی کامیابی بھی حاصل ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی 1980 میں اپنی موجودہ شکل میں بنی تھی اور 1984 کے لوک سبھا انتخابات میں اسے محض دو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ۔ مگر اس کے بعد 1996 میں ’’ بی جے پی ‘‘ سب سے بڑی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری اور بر سرِ اقتدار آنے میں بھی کامیاب ہو گئی ۔ اس کے بعد 1998 ، 1999 میں بھی یہ سلسلہ چلا ۔اس کے علاوہ 2014 میں بھی بی جے پی محض اپنے بل بوتے پر سرکار بنانے میں کامیاب ہوئی ۔ اس کے بعد بھارت میں ہوئے حالیہ صوبائی انتخابات میں بھی بی جے پی نے محض ہندو کارڈ استعمال کرتے ہوئے اتر پردیش میں کامیابی حاصل کی ۔
* یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ انڈیا میں بڑی تیزی سے ہندو نیشنل ازم ہر شعبے میں پروان چڑھ رہا ہے اور اس کی مثالیں ہندو ستان کے تمام شعبہ حیات میں با آسانی تلاش کی جا سکتی ہیں ۔ بڑھتی ہندو انتہا پسندی کے ایک معاملے کو یہاں ایک کیس سٹڈی کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔
خود بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے کے دوران بھارت میں گوشت کی انڈسٹری نے بہت ترقی کی ۔یہاں پر اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ بھارت میں گوشت کے کاروبار کی حالت کیا ہے ۔ کیونکہ اس سے بخوبی واضح ہو جائے گا کہ یو پی میں اس حالیہ تنازعہ کی بدولت کیا اثرات مرتب ہوئے ۔
یاد رہے کہ پورے بھارت میں اتر پردیش گوشت کی برآمد کرنے والا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ البتہ پچھلے تقریباً دس پندرہ برسوں میں پورے انڈیا میں گوشت کا کاروبار دوگنی رفتار سے بڑھا ہے ۔ سال 1998 سے 1999 کے دوران بھارت میں انیس لاکھ ٹن گوشت کی پیداوار ہوتی تھی ۔ جو کہ 2002-2003 میں بڑھ کر اکیس لاکھ ٹن ہو گئی ۔ 2005 سے 2006 کے درمیان یہ اعدادو شمار 23 لاکھ ٹن ہو گئے ۔ مگر 2007-2008 کے دوران اس میں تیزی سے بڑھوتری ہوئی اور یہ 40 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ۔ 2009-2010 میں پینتالیس لاکھ ٹن اور 2011-2012 میں پہلی بار یہ اعداد و شمار 50 کا ہندسہ عبور کر کے 55 لاکھ ٹن ہو گئے ۔ اس کے بعدبھی اس میں اضافہ جاری رہا اور اس وقت بھارت میں 73 لاکھ ٹن گوشت کی پیداوار ہو رہی ہے ۔ صرف جولائی 2016 سے اکتوبر 2016 کے بیچ اس میں ساڑھے سات فیصد کی بڑھوتری ہوئی ۔ محض جولائی سے اکتوبر 2016 کے دوران 24 لاکھ ٹن گوشت کی پیداوار ہوئی ۔
یہاں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ بھارت میں گوشت کے کاروبار میں ابھی بھی سب سے بڑی حصہ داری مرغ کی ہے ۔ بھارت میں پورے گوشت کی پیداوار میں 42 فیصد حصہ چکن کا ہے ۔ بھینس کا گوشت 20 فیصد ، بکرا 16 فیصد ، سور کا گوشت 10 فیصد اور بھیڑ کے گوشت کا حصہ 7 فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر گوشت کا تناسب پانچ فیصد ہے ۔
واضح رہے کہ گوشت کی پیداوار کے حساب سے سب سے پہلے نمبر پر اتر پردیش ، دوسرے نمبر پر مہاراشٹر اور تیسرے نمبر پر مغربی بنگال ہے ۔ چوتھا مقام ’’ آندھرا پردیش ‘‘ کا ہے جبکہ ’’ تلنگانہ ‘‘ پانچویں نمبر پر ہے ۔ کرناٹک ، تامل ناڈو ، کیرالہ اور گجرات کا نمبر ان کے بعد آتا ہے ۔ اتر پردیش میں یہ کاروبار لگ بھگ بائیس ہزار کروڑ روپے کا ہے ۔ پورے بھارت کے آدھے سے زیادہ گوشت کی پیداوار یو پی میں ہوتی ہے ۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ بھینس کے گوشت کی پیداوار بھارت میں ہوتی ہے جبکہ بکرے کے گوشت میں یہ مقام دوسرا ہے ۔
چونکانے والے اعداد و شمار تو چکن کے ہیں ۔ پورے بھارت میں دنیا کے صرف چھ فیصد مرغے مرغیاں ہیں جبکہ چکن کے معاملے میں بھارت کی حصہ داری اکیس فیصد ہے ۔ چکن کے معاملے میں ہریانہ پہلے نمبر پر ، اس کے بعد مغربی بنگال ، پھر اتر پردیش ، چوتھے نمبر پر تامل ناڈو اور مہاراشٹر پانچویں نمبر پر ہے ۔ جبکہ انڈوں کے معاملے میں آندھرا پردیش پہلے نمبر پر ، تامل ناڈو دوسرے ، مہا راشٹر تیسرے ، پنجاب چوتھے اور کیرالہ پانچویں نمبر پر ہے ۔ بھارت میں کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی گوشت کے کاروبار سے جُڑی ہے ۔
اگر دودھ کے ضمن میں دیکھا جائے تو 2007-2008 کے دوران پورے بھارت میں 10 کروڑ 70 لاکھ ٹن دودھ کی پیداوار ہوتی تھی ۔ 2010-2011 میں یہ بڑھ کر 12 کروڑ 18 لاکھ ٹن ہو گئی اور اگلے سال یعنی 2011-12 کے دوران یہ 12 کروڑ 80 لاکھ ٹن ہو گئی ۔ 2015-16 میں یہ اعداد و شمار 14 کروڑ 63 لاکھ ٹن تک پہنچ گئے ۔ بھارت اس وقت پوری دنیا کا ساڑھے اٹھارہ فیصد وددھ پیدا کرتا ہے ۔
گوشت کی بر آمد کے شعبے میں 2010 میں پورے بھارت نے کل 917 میٹرک ٹن بیف کی بر آمد کی ۔ 2011 میں 1,268 میٹرک ٹن کی بر آمد کی گئی ۔ 2012 میں بھارت نے 1,411 میٹرک ٹن گوشت کی بر آمد کی ۔ جبکہ 2013 میں یہ بڑھ کر 1,765 میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ۔ بھارت میں چونکہ گائے کے گوشت پر پابندی ہے اس لئے یہاں بیف کا مطلب بھینس بھینسے کا گوشت لیا جانا چاہیے ۔
ہندو انتہا پسندی کا انتہائی تیزی سے معاشرے میں سرایت کرنا
2 ) ہندو راشٹر کے قیام اور دنیا کی سپر پاور بننے کا جنون ( اور اس مقصد کے لئے ہتھیاروں کے ذخائر )
4 ) ضیاء الحق والے تجربے کے باوجود اسی ڈگر پر قائم رہنا ۔
5 ) کسانوں کی خود کشیوں میں انتہائی خطر ناک اضافہ
2016 میں کسانوں کی خود کشیوں کے حالات کچھ یوں رہے ( اس سے ان کی خوشحالی اور ’’ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘‘ کے نعرے کی حقیقت بھی سامنے آ جاتی ہے )
مہا راشٹر 4,291
کرناٹک 1,569
تلنگانہ 1,400
مدھیہ پردیش 1,290
چھتیس گڑھ 936
آندھرا پردیش 916
تامل ناڈو 606
خود بھارت کے سرکاری ادارے ’’ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو ‘‘ کے مطابق گذشتہ 15 سال میں 3 لاکھ سے زیادہ کسان خود کشی کر چکے ہیں ۔
راجیہ سبھا ٹوٹل سیٹیں 245
لوک سبھا ٹوٹل سیٹیں 543
سیڈول کاسٹ سیٹیں 84
سیڈول ٹرائبس سیٹیں 47
ٹوٹل ریزروڈ سیٹیں 131
کانگرس کا سب سے پہلے طرہ امتیاز سیکولر ازم تھا خصوصاً وہ خود کو مسلمانوں کے ہمدرد کہتے تھے ۔ ( خاص کر نہرو ) مگر اندرا گاندھی کے اوائل دور میں خالصتان تحریک کے بعد سے کانگرس ’’ سافٹ ہندوتوا ‘‘ کی پالیسی پر بتدریج عمل پیرا ہو گئی اور اسی وجہ سے اسی دور ( 1983 ) میں ہی ’’ میناکشی پورن ‘‘ ( تامل ناڈو ) میں بڑے پیمانے پر عیسائیوں اور اچھوتوں نے مذہب اسلام کو اپنانا شروع کر دیا ۔ جس کے رد عمل میں کانگرس نے اعلانیہ طور پر ’’ سافٹ ہندوتوا ‘‘ کی پالیسی پر عمل شروع کر دیا ۔
6 جون گولڈن ٹیمپل
اکتیس اکتوبر 1984 اندرا گاندھی کا قتل
اکتیس اکتوبر 1984 سکھوں کی بد ترین نسل کشی
چھ دسمبر 1992 بابری مسجد کا سانحہ
1998-1999 میں کئی صوبوں میں بھارتی عیسائیوں کے خلاف منظم حملے ہوئے اور گرجا گھروں کو مسمار کر دیا گیا ۔
موہن بھاگوت کا 2025 یعنی آر ایس ایس کے قیام کے سو سال پورے ہونے تک ہندو راشٹر کے قیام کا دعویٰ ۔
مندرجہ بالا تمام جائزے کے بعد ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے داخلی تضادات خود اس کے خمیر میں پوشیدہ ہیں ۔
انسان دوست دانشور ’’ ڈاکٹر سروت رائے ‘‘ کی اس رائے کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جا سکتا کہ ’’ بھارت اپنے انہی تضادات کی موجودگی میں کیا 2047 تک اپنی موجودہ حالت میں برقرار رہ پائے گا؟؟ ۔ اور غالب امکان یہ ہے کہ موجودہ بھارت 2047 سے پہلے ہی تین مختلف ریاستوں میں بٹ جائے گا ۔
نارتھ انڈیا ہندو انتہا پسندی کے چنگل میں پہلے سے بھی زیادہ گرفتار ہو سکتا ہے جبکہ جنوبی انڈیا مغربی ملکوں کے زیر اثر ایک یا ایک سے زائد ریاستوں میں تحلیل ہو سکتا ہے البتہ شمال مشرقی بھارت کیمونسٹ نظریات کے زیر اثر چین کے مزید قریب ہو سکتا ہے ۔
یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ پچھلے تقریباً 2 ہزار سال کی تاریخ میں بھارت موجودہ شکل میں کبھی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہا ۔ اس امر سے بھلا کون واقف نہیں کہ محض 70 سال پہلے تک ہندوستان برطانوی قبضے میں تھا اور اس سے پہلے برائے نام ہی سہی مگر 1857 تک بھارت میں مسلمانوں کی بادشاہت قائم تھی ۔ ایسے میں آنے والے ادوار میں بھی بھارت کے لئے کسی تابناک مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ۔
اگرچہ بہت سے بھارتی دانشوروں کی رائے ہے کہ انڈیا کی اقتصادی ترقی جس طرح سرعت سے بڑھ رہی ہے اس کے پیشِ نظر وہ 2050 میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جائے گا ۔ جبکہ اسی پس منظر میں غیر جانبدار مبصرین کا اصرار ہے کہ دہلی کی نام نہاد ترقی کے ان دعووں کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ یہ مبینہ ترقی محض بھارت کے چند مخصوص علاقوں تک محدود ہے ۔ دوسری جانب ہندو انتہا پسندی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کے پیشِ نظر غالب امکان یہ ہے کہ اپنے قیام کے سو سال پورے ہونے یعنی 2047 سے قبل ہی بھارت غربت و افلاس اور ہندو شدت پسندی کے نتیجے میں ایک سے زیادہ حصوں میں بٹ سکتا ہے ۔
ٍساؤتھ انڈیا کی پانچوں ریاستوں تامل ناڈو ، کیرالہ ، کرناٹک ، تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں کسانوں اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے مابین معاشی ناہمواری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور ’’ سافٹ ویئر انڈسٹریز ‘‘ میں ترقی کا عمل نہ صرف بری طرح متاثر ہوا ہے بلکہ بقول ڈاکٹر منموہن سنگھ اس صنعتی ترقی کے تمام اشاریے منفی سمت میں جا رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ثقافتی رشتے ، بعض حوالوں سے مذہبی رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور آر ایس ایس اسی بات کو بنیاد بنا کر اس بات کی دعویدار ہے کہ بھارت کی سلامتی پر ہندو انتہا پسندی کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے مگر اس ضمن میں یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ بھارت کی گذشتہ 2000 سال کی تاریخ خود اس امر کی گواہ ہے کہ بھارت میں بدترین قسم کا ذات پات کا نظام جاری ہے اور صدیاں گذرنے کے باوجود اونچی ذات کے ہندوؤں اور اچھوتوں کے مابین سماجی ناہمواری میں کوئی فرق نہیں آیا اور ایسے میں ’’ آر ایس ایس ‘‘ ، بی جے پی اور اونچی ذات کے ہندوؤں کے رویوں میں آنے والی کسی بھی بڑی مثبت ثقافتی تبدیلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
پاکستان افغانستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بھی طور پاکستان کے دیر پا مفادات میں نہیں کیونکہ یہ ہر لحاظ سے پاک مفادات کو متاثر کر رہی ہے ۔ ایسے میں اس امر کو ہر حوالے سے حوصلہ افزا قرار دیا جانا چاہیے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں ممالک کے تعلقات میں آئی دراڑ کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے ۔
لیسنز فار پاکستان
مندرجہ بالا تمام تحریر کے نسبتاً تفصیلی مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا شاید دشوار نہ ہو کہ وطنِ عزیز کے لئے بھی آنے والے ادوار میں ’’’’ سب اچھا ہے ‘‘‘‘ والی صورتحال نہیں ہو گی ۔ اور معاشی ، معاشرتی اور سماجی پہلوؤں سے بعض مشکلات در پیش ہو سکتی ہیں لیکن یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وطنِ عزیز کے سبھی حلقے تمام لسانی ، گروہی ، جغرافیائی اور دیگر نوع کے اختلافات سے اوپر اٹھ کر پاکستان کی سا لمیت اور خوشحالی کے لئے جدوجہد کریں گے ۔
یہاں یہ امر خصوصی طور پر توجہ کا حامل ہے کہ حتی الامکان کوشش کی جانی چاہیے کہ پوری توجہ نہ صرف ملکی سلامتی پر مرکوز رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ’’ سی پیک ‘‘ کی تکمیل اور دیگر معاشی مسائل کا حل نکالا جائے کیونکہ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ اپنی پیدا کردہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے نتیجے میں خود ہی مستقبل قریب میں اپنے منطقی انجام کو ( انشاء اللہ ) پہنچ جائے گا ۔
ایسے میں انشاء اللہ آنے والے دن یقیناًپاکستان کے تابناک مستقبل کی نوید ثابت ہوں گے ۔