Newspaper Article 02/02/2015
بھارت کی جارحانہ روش یوں تو پچھلے ساٹھ برسوں میں اتنی واضح رہی ہے جسے ثابت کرنے کے لئے شاید مزید دلائل کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ بیرونی دنیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنی چلی آ رہی ہے اور اس کا کریڈٹ کسی حد تک بھارت کی سفارتی پالیسیوں کو دیا جاتا ہے کہ انھوں نے نہایت شاطرانہ ڈھنگ سے بھارت کی بابت عالمی سطح پر وہ تاثر قائم کیا جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا ۔
مگر مودی کے آنے کے بعد سے تو دہلی کا حکمران گروہ نے زیادہ ہی بے لگام ہو چلا ہے اور کئی بھارتی دانشور ان کا موازنہ سابق امریکی صدر ’’ رونالڈ ریگن‘‘ سے کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ جس طرح ریگن نے بغیر کھلی جنگ لڑے سوویت یونین کے حصے بخرے کر دیے ۔ مودی بھی پاکستان کے حوالے سے اسی روش پر عمل پیرا ہیں ۔
اس بھارتی تاثر کا گہرائی سے جائزہ لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھارت کی خواہش تو ہو سکتی ہے بلکہ یقیناًہے مگر اس کی تکمیل کا ذمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔.
امریکی صدر کے حالیہ دورہ بھارت کے نتائج کے حوالے سے بھی وطنِ عزیز میں یہ تاثر خاصا پختہ ہے کہ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کسی حد تک ناکامی ہے ۔ بھارت کی داخلی سیاست کا طالبِ علم ہونے کے ناطے راقم کی رائے ہے کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے اگرچہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے مگر اس بابت مایوسی کی کیفیت کا شکار ہونا شاید کسی طور درست نہیں۔
مثال کے طور پر اوبامہ کے دورے کے خاتمے کے بعد چوبیس گھنٹوں کے اندر یعنی 28 جنوری کو بھارت کی خارجہ سیکرٹری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا حالانکہ موصوفہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی آٹھ ماہ باقی ہیں اور اگر خارجہ پالیسی درحقیقت بھارتی نقطہ نظر سے بہت مثبت نتائج پیدا کر رہی ہوتی تو فارن سیکرٹری کو یوں کبھی نہ ہٹایا جاتا ۔
واضح رہے کہ اس سے 28 برس پہلے 1987 میں راجیو گاندھی کے دور میں محض ایک بار خارجہ سیکرٹری ’’ وینکٹیشو رن ‘‘ کو قبل از وقت ایسے ہٹایا گیا تھا۔ سجھاتا سنگھ کو ہٹانے کے پیچھے دوسرا عنصر انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر’’ ڈووال‘‘ ہیں جو 2004 تا 2005 تک انڈین خفیہ ادارے ’’ آئی بی ‘‘ کے سربراہ رہے جبکہ سجھاتا سنگھ کے والد ’’ ٹی وائی راجیشور‘‘ بھی 1980 تا 1983 تک انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ رہے یوں اجیت کمار ڈووال کو اپنے ’’ آئی بی ‘‘کے دور کے حوالے سے ان کے باپ سے بہت سی شکایات اور ناراضگیاں بھی ہیں ۔ خاص طور پر ان کا خیال ہے کہ سجھاتا سنگھ کے والد نے انھیں ’’کیرتی چکر‘‘ کا ایوارڈ ملنے کی راہ میں بہت سے روڑے اٹکائے تھے لہذا باپ کا بدلہ اس کی بیٹی کو اس ذلت آمیز ڈھنگ سے ہٹا کر لیا گیا ہے ۔این ڈی ٹی وی کو انٹر ویو میں موصوفہ نے اسے بھارت سرکار کی’’ گری ہوئی حرکت ‘‘قرار دیا ہے ۔ اس پس منظر میں ہمارے میڈیائی حلقے جو بھارت کی گڈگور ننس کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے ان کے لئے شاید اس معاملے میں سوچنے کا کافی سامان پنہاں ہے ۔
نئے خارجہ سیکرٹری ’’ جے شنکر‘‘ نے انٹر نیشنل ریلیشنز میں دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ’’ پی ایچ ڈی ‘‘کی ڈگری بھی لے رکھی ہے ۔ موصوف اس سے پہلے امریکہ ، چین ، سنگاپور اور چیک ریپبلک میں سفیر رہے ہیں ۔ 2004 تا 2007 وہ بھارتی وزارتِ خارجہ میں امریکن ڈیسک کے انچارج رہے اور اسی دوران 18 جولائی 2005 کو منموہن کے دورہ امریکہ کے دوران دونوں ملکوں کے مابین ایٹمی توانائی کا معاہدہ طے پایا اور اس کے اگلے مرحلے میں جب دونوں ممالک کے درمیان 2008 میں معاہدہ ’’ 123 ‘‘ کے نام سے ایٹمی توانائی کے لحاظ سے مزید تفصیلات طے پائیں ، تب بھارتی وفد کی قیادت ’’ جے شنکر ‘‘ نے ہی کی تھی ۔
نئے خارجہ سیکرٹری کا اصل تعارف یہ ہے کہ وہ بھارت کے ممتاز صحافی اور سیکورٹی امور کے ماہر ’’ کے سبرا منیم ‘‘ کے صاحبزادے ہیں ۔یاد رہے کہ سبرا منیم کو بھارت میں پاکستانی معاملات پر اتھارٹی سمجھا جاتا تھا ۔2 فروری 2011 میں موصوف نے وفات پائی ۔ وہ بھارتی ادارے ’’ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفینس سٹڈیز اینڈ انیلیسس ‘‘ یعنی ’’ آئی ڈی ایس اے ‘‘کے طویل عرصے تک سربراہ رہے ۔ علاوہ ازیں ’’ انڈین جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی ‘‘ کے چیئرمین اور کارگل جنگ کے بعد بھارتی فوج کی کوتاہیاں جانچنے کے حوالے سے ’’ کارگل ریویو کمیٹی‘‘ کے نام سے جو کمیشن بنا ، وہ اس کے بھی سربراہ تھے ۔
’’جے شنکر ‘‘ کے فارن سیکرٹری بننے کے بعد بھارتی جارحانہ عزائم مزید واضح ہو گئے ہیں کیونکہ اس سے پہلے ’’ آئی بی ‘‘کے سابقہ چیف اور 7 برس تک پاکستان میں جاسوسی کے فرائض انجام دینے والے اجیت کمار ڈووال کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنایا گیا ۔ اس کے ساتھ انڈیا کے سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کو وزیر مملکت برائے خارجہ امور بنایا گیا ۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جنرل سنگھ نے ستمبر 2013 میں اعلانیہ اعتراف کیا کہ انھوں نے انڈین آرمی کی سپہ سالاری کے دور میں ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ کے نام سے بھارتی فوج میں خصوصی فورس بنائی جو سرحد پار پاکستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے اندر جا کر کاروائیاں کرتی رہی ۔ اب ان دونوں کے ساتھ ’’ سبرا منیم‘‘ کے بیٹے جے شنکر بھی شامل کر لیے گئے ہیں اور اس ٹیم کی سربراہی ’’ نریندر مودی ‘‘ ا ور ’’ آر ایس ایس ‘‘چیف موہن بھگوت کے پاس ہے۔ موہن بھگوت جو خود بھارتی عدالتوں کے ریکارڈ کے مطابق ’’ سمجھوتا ایکسپریس ‘‘ دہشتگردی میں براہ راست ملوث رہے ہیں ۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ ماضی قریب تک بھارتی میڈیا پاک آرمی اور آئی ایس آئی کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا آیا تھا مگر اب غالباً نئی حکمتِ عملی کے تحت وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اس اعزاز کا مستحق سجھ لیا گیا ہے تبھی تو سابق بھارتی سفارت کار ’’ اجیت ڈوگرہ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ویئر بارڈرز بلیڈ ‘‘میں یہ الزام تراشی کی ہے کہ 1993 کے اوائل میں ممبئی میں ہوئے بم دھماکے وزیر اعظم نواز شریف کی منظوری سے ہوئے تھے (دکن ہیرالڈ 31 جنوری ) ۔
اس کے علاوہ اجیت ڈوگرہ نے پاک آرمی اور نواز شریف کے حوالے سے کافی یاوہ گوئی کی ہے ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر بھاتی ٹی وی چینل ’’نیوز نیشن‘‘ نے 30 جنوری کو ایک گھنٹے سے زائد پر مشتمل ٹاک شو نشر کیا جس میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ’’ شنکر پرشاد‘‘ ، میجر جنرل ’’ جی ڈی بخشی ‘‘ اور راجیو ڈوگرہ نے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت خصوصاً وزیر اعظم نواز شریف کے ضمن میں ناقابلِ تصور حد تک لغو الزام تراشی کی ۔
مندرجہ بالا تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی قیادت پاکستان کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں کسی بھی حد تک جانے کی سوچ رکھتی ہے اور اپنی افواج اور عوام کے گرتے مورال اور اپنے دیرینہ خوابوں کی تکمیل کی خاطر کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرنے کی بابت کافی سنجیدہ ہے ۔ اور یوں پاکستانی جانب جو تشویش ظاہر کی جا رہی ہے وہ بے جا نہیں ۔ انشاء اللہ کسی اگلی نشست میں کوشش ہو گی کہ اس تمام صورتحال کے ممکنہ اثرات اور متوقع نتائج کی بابت مزید بات ہو۔
دو فروری کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسر چ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دارنہیں )