Newspaper Article 29/07/2014
ایک طرف دنیا بھر کے مسلمان عید الفطر کا تہوار منا رہے ہیں تو دوسری طرف غزہ ،کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں غاصب قوتیں مظلوم مسلمانوں پر بربریت اور سفاکی کا ہر حربہ آزما رہی ہے۔اسی پس منظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ تقریباً ساری دنیا آگاہ ہے کہ اگست ۱۹۴۸ اور 5 جنوری ۱۹۴۹ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ قرار داد وں کے ذریعے بھارت سے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حقِ خودارادیت کا موقع فراہم کرے۔اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں خود بھارت لے کر گیا تھا اور ان متفقہ قرار دادوں کے ذریعے اس نے اقوامِ عالم سے عہد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دے گا۔اسی حوالے سے اقوامِ متحدہ نے دونوں ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر لائن کی نگرانی کے لئے اقوامِ متحدہ کے مبصرین تعینات کیے جنہیں ’’یو این ایم او جی آئی پی ز‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ابتدائی برسوں میں بھارتی وزیرِ اعظم ’’جواہر لعل نہرو‘‘ اپنے اس وعدے پر کسی حد تک قائم بھی رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ دہلی سرکار اس ضمن میں تمام وعدوں سے منحرف ہو گئی اور اس نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کاایک اٹوٹ انگ ہے ۔مگر چند روز قبل یعنی ۱۲ جولائی کو مودی حکومت نے ان مبصرین کو دہلی میں اپنے دفتر خالی کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور یوں اپنی دانست میں مقبوضہ ریاست کو مستقل بنیادوں پر ہڑپ کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔
اس صورتحال پر تبصرہ پر کرتے مبصرین نے کہا ہے کہ کشمیر کے بے گناہ مگر غیور عوام نے جب ۱۹۸۸ میں بھارت سے آزادی کی فعال تحریک شروع کی تو قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کا بد ترین سلسلہ شروع کر دیا۔ ۱۹۸۹ سے لے کر ۳۱ دسمبر ۲۰۱۳ تک ۹۳۹۸۴ نہتے کشمیری بھارت کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔یہ امر بھی اہم ہے کہ کچھ عرصہ قبل یورپی یونین نے بھارت پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقین کے لئے قابلِ قبول ہو۔
کشمیر پریس انٹر نیشنل کے مطابق یکم جنوری ۲۰۱۴ کو یورپی یونین کے پرنسپل ایڈوائزر برائے خارجہ امور ’’فیڈرو سرانو‘‘ نے یورپی یونین کے صدر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ای یو‘‘کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں پورا علم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور ’’ای یو‘‘کے وفد نے ریاست جموں کشمیر کے دورے کے دوران اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ بھارتی پولیس،فوج اور پیراملٹری فورسز انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں اور یورپی یونین چاہتی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا یہ سلسلہ فوراً روکا جائے۔ ’’ای یو‘‘کے مطابق بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ سرحد کے دونوں اطراف کی سول سوسائٹی،سفارت کاروں،دانشوروں اور نو جوانوں کے ساتھ یورپی یونین کا قریبی رابطہ ہے ۔ان حلقوں کو چاہیے کہ وہ ان متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں جو گذشتہ ۲۴ برسوں کے دوران بہت متاثر ہوئے ہیں تا کہ وہاں کے نو جوان اور خواتین کو یقین دلائیں کہ آئندہ ان کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی نہیں ہو گی علاوہ ازیں بھارت کو یہ بات یقینی بنانی ہو گی کہ وہ اپنی پولیس ،فورسزاور فوج کو جوابدہ بنانے کے ساتھ ریاست جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔یورپی یونین نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ اس کا موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے جس میں کشمیریوں کی شمولیت بھی لازمی ہو۔
’’کے پی آئی‘کے مطابق برطانوی وزیرِ اعظم’’ڈیوڈ کیمرون‘‘ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو حاصل’’ سپیشل پاورز ایکٹ ‘‘ اور اس قسم کے دوسرے جابرانہ قوانین کو ختم کیا جائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اور اس تنازعہ کو پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
علاوہ ازیں چند روز قبل بھارتی لوک سبھا کی خاتوں رکن ’’کویتا راؤ‘‘ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ریاست جموں کشمیر اور تلنگانہ (سابقہ حیدرآباد دکن) کسی بھی طور بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ان علاقوں پر بھارت نے قوت کے زور پر قبضہ کیا ہوا ہے‘‘۔واضح رہے کہ یا انسان دوست خاتوں حالیہ لوک سبھا انتخابات میں تلنگانہ کے نظام آباد حلقے سے منتخب ہوی ہیں اور صوبے کے وزیرِ اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کی صاحبزادی ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ دہلی سرکار کی جانب سے ’’یو این‘‘مبصرین کو ہٹانے کی بات کے فوراً بعد بھارتی رکنِ پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے بیانات اگرچہ خوش آئند ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے تمام انصاف پسند حلقے تنازعہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا ٹھوس کردار زیادہ فعال ڈھنگ سے ادا کریں تا کہ اس دیرینہ تنازعہ کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیاجا سکے۔
اٹھائیس جولائی کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)