Newspaper Article 11/01/2015
آٹھ جنوری کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ پاکستان کے دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کے حوالے سے بھارتی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ۔ مبصرین نے کہا ہے کہ ایک جانب بھارت نے پاکستان کے خلاف الزامات ایک نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف چار جنوری کو ’’ آر ایس ایس ‘‘کے سربراہ ’’ موہن بھگوت ‘‘ نے ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ بھارت کا مستقبل ہندوؤں کے اتحاد سے وابستہ ہے اور ہر قیمت پر ’’ آر ایس ایس ‘‘اسے ہندو راشٹر بنا کر رہے گی ۔ موصوف احمد آباد میں ’’ آر ایس ایس ‘‘کے سالانہ کنونشن سے خطاب کر رہے تھے ۔ یہ کنونشن 3 تا 4 جنوری کو گجرات کی راج دھانی احمد آباد میں منعقد ہوا ۔ اس موقع پر سبھی حاضرین سے عہد لیا گیا کہ وہ جلد سے جلد بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے ۔یاد رہے کہ اس سے کچھ روز قبل بھی بھگوت اعلانیہ یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت کے تمام ہندو نوجوانوں کو اپنی جوانیاں ختم ہونے سے پہلے پہلے اسے ایک ہندو مملکت میں تبدیل کرنا ہو گا ۔ اس ضمن میں انھوں نے 2021 کی ڈیڈ لائن بھی دی اور کہا کہ 2021 میں ہونے والی مردم شماری میں بھارت کی آبادی سو فیصد ہندوؤں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ ہر دس سال بعد بھارت میں مردم شماری ہوتی ہے ۔ آئندہ مردم شماری 2021 ہونا قرار پائی ہے ۔ اس لئے ’’ آر ایس ایس ‘‘اور اس کے ہم نوا کوشش کر رہے ہیں کہ اس دوران اپنے ہدف کو حاصل کر لیں ۔
دوسری جانب ہندو مہاسبھا نامی جماعت نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے کرنسی نوٹوں پر گاندھی کی تصویر ہٹا کر ’’ شیوا جی مرہٹہ‘‘ اور ’’ مہا رانا پرتاپ ‘‘ کی تصاویر لگائی جائیں (یاد رہے کہ شیوا جی نے احمد شام ابدالی اور مہارانا پرتاپ نے مغل بادشاہ اکبر کے خلاف لڑائی لڑی تھی اور شکست کھائی تھی ) اس موقف کا اظہار ہندو مہا سبھا کے قائم مقام سربراہ ’’ کملیش تیواڑی ‘’‘ نے پانچ جنوری کو لکھنؤ میں کیا ۔انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ مہاتما گاندھی کو بابائے قوم کہنے اور لکھنے پر مکمل پابندی لگائی جائے ۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گاندھی کے قاتل ’’ ناتھو رام گوڈسے ‘‘ کا تعلق نہ صرف ’’ آر ایس ایس ‘‘سے تھا بلکہ وہ ہندو مہا سبھا کا باقاعدہ رکن تھا ۔ اسی لئے چند روز پہلے ہندو مہاسبھا نے گاندھی کے قاتل گوڈسے کا مجسمہ یوپی کے شہروں سیتا پور اور میرٹھ میں نصب کیا اور اس کے مندر بھی بنوائے ۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی نے ’’ آر ایس ایس ‘‘کے چیف بھگوت سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے مسائل پیدا نہ کریں کیونکہ انھوں نے عام عوام سے ووٹ ترقی اور گڈ گورننس کے نام پر لئے تھے مگر کہا جاتا ہے کہ موہن بھگوت نے ان کے مطالبے پر خاص توجہ نہ دی ۔ البتہ آگرہ میں مسلمانوں کی گھر واپسی یعنی انہیں جبری ہندو مذہب تبدیل کروانے والے پروگرام کی نگرانی کرنے والے ’’ راجیشور سنگھ ‘‘ کو کچھ روز کے لئے چھٹی پر بھیج دیا ہے ۔ یاد رہے کہ راجیشور سنگھ ہندو جاگرن سمتی کی یوپی شاخ کے سربراہ تھے۔
پورے بھارت کے طول و عرض میں بسنے والی اقلیتوں بشمول مسلمانوں ، عیسائیوں اور سکھوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اسی لئے شمالی ہندوستان کی چرچ کمیٹی کے سربراہ اور رومن کیتھولک عیسائی فرقے کے ذمہ داروں کے علاوہ انڈین سالویشن آرمی نے امرتسر میں اپنا اجلا س منعقد کر کے وزیر اعظم بھارت مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جبری مذہب تبدیل کروانے کے ’’ آر ایس ایس ‘‘کے پروگرام کے حوالے سے کھل کر اپنا موقف واضح کریں ۔ بھارت کی مسیح برادی کے رہنماؤں نے یورپ اور امریکہ میں بسنے والی مسیحی برادری اور عیسائیوں کے روحانی پیشواسے درخواست کی ہے کہ وہ بھارت کی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ۔
غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری کے سبھی اعتدال پسند حلقے بھارت میں جاری اس ہندو جنونی مہم کا سنجیدگی سے نوٹس سے لیتے ہوئے اس کے تدارک کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے ۔
گیارہ جنوری کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )