Newspaper Article 08/01/2017
بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔بھارتی چیف الیکشن کمیشنر نسیم زیدی نے نئی دہلی میں بدھ کی صبح پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ یہ انتخابات چار فروری سے آٹھ مارچ کے درمیان ہوں گے ۔ یہ انتخابات اتر پردیش میں 403 سیٹوں ، پنجاب میں 117 ، گوا میں 40 ، اتراکھنڈ میں 70 ، اور شمال مشرقی ریاست منی پور میں 60 سیٹوں میں ہو رہے ہیں ۔اترپردیش میں اسمبلی انتخابات 11 فروری سے آٹھ مارچ تک سات مرحلوں میں منعقد کیے جائیں گے جبکہ منی پور میں انتخابات دو مرحلوں میں آٹھ فروری اور چار مارچ کو منعقد کیے جائیں گے۔یاد رہے کہ منی پور اگرچہ چھوٹی ریاست ہے لیکن ریاست میں چل رہی علیحدگی کی تحریک کی وجہ سے وہاں دو مرحلوں میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں ۔ بھارت کی مغربی ساحلی ریاست گوا اور پنجاب میں چار فروری کو ایک ہی مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اتراکھنڈ میں بھی ووٹنگ ایک مرحلے میں ہوگی اور 15 فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔تمام ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی 11 مارچ کو ہو گی ۔ بھارتی چیف الیکشن کمیشن نسیم زیدی نے پریس کانفرنس میں تاریخوں اور باقی تفصیلوں کا اعلان کیا ۔ واضح رہے کہ یہ ریاستی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اترپردیش اور پنجاب جیسی ریاستوں کے نتائج 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کی سمت کا تعین کریں گے ۔یہ انتخابا ت اس لیے بھی اہم ہیں کہ دہلی میں اقتدار میں آنے کے بعد اروند کجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی پہلی بار پنجاب اور گوا میں عام صوبائی انتخابات میں حصہ لے گی جہاں وہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔ یہ انتخابات اس لیے بھی دلچسپ ہو گئے ہیں کہ 22 کروڑ سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کی حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی ان دنوں آپسی پھوٹ کا شکار ہے اور باپ بیٹے سماج وادی پارٹی کے سربراہ ’’ ملائم سنگھ یادو ‘‘ اور ان کے صاحبزادے اور اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ ’’ اخلیش یادو ‘‘ آمنے سامنے ہیں ۔گذشتہ دنوں بھارتی سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ انتخاب ایک سیکولر عمل ہے اور اس میں مذہب کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر کوئی امیدوار مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو اسے نااہل قرار دیا جائے گا۔ اسی پس منظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ امر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور بی جے پی ( بھارتیہ جنتا پارٹی ) جیسے انتہا پسند ہندو گروہ اس حد تک سیکولر ازم کے دعووں کو بر قرار رکھ پاتے ہیں ؟ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا ۔ کیونکہ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ’’ بی جے پی ‘‘ اور آر ایس ایس پوری طرح سے ہندو انتہا پسندی کے بل پر ہی 2014 کا لوک سبھا چناؤ بھاری اکثریت سے جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی اور مبصرین کے نزدیک مو جودہ صورتحال میں سیکولر دعوؤں کو بر قرار رکھ پانا ناممکن نہیں تو ناممکن حد تک مشکل امر ہے ۔ خصوصاً جبکہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک بھی بے پناہ زور پکڑ چکی ہے ، ایسے میں خود کو در پیش چیلنجز کا مقابلہ ’’ بی جے پی ‘‘ کہاں تک کر پائے گی ، بظاہر یہ خاصا مشکل مرحلہ ہو گا ۔ دوسری جانب بھارتی سربراہِ مملکت ’’ پرنب مکر جی ‘‘ نے 5 جنوری کی شام ساڑھے پانچ بجے یہ انتہائی چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ نوٹ بندی کے نتیجے میں بھارتی معیشت بری طرح ڈگمگا کر رہ گئی ہے اور اس کے نہایت خطر ناک اثرات بھارتی معیشت کو ناقابلِ تلافی حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس کے علاوہ بھی گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں متعدد ماہرین اقتصادیات نے خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ظاہر کیا ہے کہ مودی کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں بھارت کے لئے ناقابلِ تصور حد تک مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اسی پس منظر میں سابق بھارتی وزیر اعظم اور ماہرِ اقتصادیات ’’ منموہن سنگھ ‘‘ واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ بھارتی ’’ جی ڈی پی ‘‘ میں دو فیصد سے بھی زیادہ کمی یقینی ہے ۔ اسی حوالے سے یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ ’’ ٹاٹا سٹیل ‘‘ سمیت کئی معروف بھارتی صنعتکار اور کمپنیاں نے انہی خیالات کا اظہار کر چکی ہیں ۔ اکثر بھارتی ماہرین اقتصادیات کہہ چکے ہیں کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں چار لاکھ ستر ہزار افراد کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں کیونکہ وہ دیہاڑی دار طبقے سے رکھتے ہیں ۔ یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ معروف امریکی ماہرِ اقتصادیات ’’ سٹیو ایچ ہانکے ‘‘ نے کہا تھا کہ بھارت میں ’’ نقدی پر حملے ‘‘ نے بھارت کی اقتصادی صورتحال کو بد ترین مندی کے راستے پر دھکیل دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ’’ ہانکے ‘‘ نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے 2017 میں اپنے پیدا کردہ اس معاشی بحران کی وجہ سے بھارتی معیشت جو قائدانہ کردار ادا کر رہی تھی ، بھارت اس مقام سے بہت نیچے گر سکتا ہے ۔
آٹھ جنوری کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )