Newspaper Article 14/04/2015
دس اپریل کو بھارتی وزیر اعظم مودی نے فرانس کی راجدھانی پیرس میں ’’ یونیسکو ‘‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے بڑے لمبے چوڑے دعوے کیے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ اسے بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک سو پچیس کروڑ انسانوں پر حکومت کرنے والا بھارتی حکمران گروہ اپنے قول و فعل کے بد ترین تضاد کا شکار ہے ۔ وگرنہ کسے علم نہیں کہ محض چند روز پہلے آٹھ اپریل کو پاکستان بحریہ نے یمن سے جب اپنے شہریوں کو نکالا تو گیارہ بھارتی شہریوں کو بھی بحفاظت کراچی لایا گیا اور وہاں سے ’’ پی آئی اے ‘‘ کی خصوصی پرواز کے ذریعے ان مصیبت زدہ افراد کو دہلی پہنچایا گیا جس پر مودی نے بھی ٹویٹ کر کے پاکستانی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔
دوسری جانب بیس مارچ کو بھارتی اخبار ’’ میل آن لائن انڈیا ‘‘ میں خاتون صحافی ’’ نیتو چندر شرما ‘‘ کی نیوز رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ المناک انکشاف کیا گیا کہ بھارتی حکومت گذشتہ سات برس سے پاکستانی شہری ’’ رانا شوکت علی ‘‘ اور ان کی اہلیہ ’’ رخسانہ ‘‘ کو پانی پت جانے کے لئے ویزہ نہیں دے رہی اور سات سال کے طویل انتظار کے بعد جب 9 فروری 2015 کو ان دونوں میاں بیوی کو ویزہ دیا ہی گیا تو اس میں شرط عائد کی گئی کہ وہ نئی دہلی کے علاقے ’’ نوئیڈا ‘‘ اور ’’ گوتم بدھ نگر ‘‘ سے باہر نہیں جا سکتے حالانکہ 55 سالہ شوکت علی اور ان کی اہلیہ ’’ پانی پت ‘‘ جانے پر مصر تھے کیونکہ 18 فروری 2007 کو سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ان کے پانچ بچے ہندو دہشتگردی کی نذر ہو گے تھے جنہیں بھارتی صوبہ ہریانہ کے شہر پانی پت میں ہی مبینہ طور پر دفنا دیا گیا تھا ۔
یاد رہے کہ 18 فروری 2007 کو دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس جب پانی پت کے قریبی ریلوے اسٹیشن ’’ دیوانہ ‘‘ کے نواح سے گزر رہی تھی تو اس کی دو بوگیوں کو بم سے مکمل طور پر اڑا دیا گیا تھا اور خود بھارتی تفتیشی اداروں ’’ ’’ این آئی اے ‘‘ اور ’’ سی بی آئی ‘‘ کی تحقیقات کے مطابق اس گھناؤنے جرم میں انڈین آرمی کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ’’ شری کانت پروہت ‘‘ ، ’’ میجر اپادھیا ‘‘ ، اور بجرنگ دل کی خاتون ’’ پرگیا ٹھاکر ‘‘ اور ’’ سوامی اسیمانند ‘‘ ملوث تھے ۔ بھارتی عدالت میں سوامی آسیمانند نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ 164 کے تحت اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی میں نہ صرف مذکورہ افراد شامل تھے بلکہ اس کی اجازت ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے سربراہ ’’ موہن بھاگوت ‘‘سے ذاتی طور پر بھی لی گئی تھی ۔
اس بد قسمت ٹرین میں سو سے زائد پاکستانی شہری جاں بحق ہو گئے تھے ، اگرچہ ہندوستانی سرکاری اعداد و شمار میں ان کی تعداد 68 بتائی گئی جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے ۔ انہی مرنے والوں میں رانا شوکت علی اور ’’ رخسانہ ‘‘ کے پا نچ بچے بھی تھے جن میں 15 سالہ عائشہ ، 13 سالہ بلال ، 11 برس کے امیر حمزہ ، 6 سال کا عبدالرحمن اور چار برس کی عاصمہ بھی شامل تھی اور یہ بد نصیب والدین اپنے بچوں کی قبروں پر جا کر فاتحہ اور قرآن خوانی کرنا چاہتے تھے مگر دہلی کی سفاکی ملاحظہ ہو کہ سات سال تک تو ان کو ویزہ ہی نہیں دیا گیا اور جب ایک انسان دوست بھارتی شہری اور انسانی حقوق کی تنظیم ’’ ساؤتھ ایشین فورم ‘‘ کے کنوینئر ’’ اشوک رندھاوا ‘‘ کی مسلسل کوششوں سے فروری 2015 میں ان کو ویزہ دیا ہی گیا تو پانی پت جانے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا گیا ۔ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے بے حسی کا یہ مظاہرہ ایسا ہے جس کے سامنے سفاکی اور سنگ دلی کے الفاظ بھی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں اور شائد اس طرزِ عمل کا صحیح احاطہ کرنے کے لئے ڈکشنری میں موزوں الفاظ ڈھونڈنا بھی مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
ہندوستان کا یہ غیر انسانی رویہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ سات اپریل کو بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مفتی کی دہلی میں ہوئی ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا کہ مقبوضہ ریاست میں کشمیری پنڈتوں کے لئے علیحدہ بستیاں تعمیر کی جائیں گی ۔ ظاہر ہے یہ اتنا سنگین معاملہ ہے جس کے خلاف کشمیری عوام کے تمام طبقات کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا اور تمام حریت پسند قائدین بشمول ’’ سید علی گیانی ‘‘ ، ’’ میرا واعظ عمر فاروق ’’ ، ’’ یاسین ملک ‘‘ ،’’ حزب المجاہدین کے سربراہ ’’ سید صلاح الدین ‘‘اور دیگر کی جانب سے دہلی سرکار کو وارننگ دی گئی کہ کشمیری عوام د ہلی سرکار کو کسی صورت اس امر کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسرائیل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری برہمنوں کے لئے الگ بستیاں تعمیر کریں اور یوں دھیرے دھیرے اسرائیلی ماڈل پر ہی آبادی کا تناسب تبدیل کر کے کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں آہستہ آہستہ اقلیت میں تبدیل کر کے رکھ دے ۔
یاد رہے کہ 1989 میں تحریک آزادی میں شدت آنے کے بعد سے چند ہزار کشمیری پنڈت بھارتی سرکار کے ایما پر مقبوضہ ریاست سے چلے گئے تھے اور ’’ بی جے پی ‘‘ نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کر رکھا تھا کہ حکومت میں آنے کی صورت میں ان کو واپس لا کر آباد کیا جائے گا ۔
اس ضمن میں قا بلِ توجہ امر یہ ہے کہ مقبو ضہ کشمیر کے کسی بھی ر ہنما نے یہ نہیں کہا کہ کشمیر ی پنڈ تو ں کو و ا پس نہیں آ نے د یا جا ئے گا بلکہ سب نے دعوت دی ہے کہ یہ لوگ واپس آ کر اپنے اپنے گھروں میں رہیں مگر چونکہ دہلی کے حکمر ا نو ں کا تو ا س سلسلے میں ا پنا ا یجنڈ ہ ہے اس لئے وہ اسرائیلی طرز پر الگ سے برہمن بستیاں آباد کرنے کے خواہش مند ہیں ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے پنڈت ’’ بھوشن بزاز ‘‘ سمیت سبھی نے الگ بستیوں کی مخالفت کی ہے ۔ یوں اس بھارتی طرزِ عمل کے خلاف پورا مقبوضہ کشمیر سراپا احتجاج ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکمران اپنی ظالمانہ روش میں کوئی تبدیلی لاتے ہیں یا روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔
دوسری جانب بیس مارچ کو بھارتی اخبار ’’ میل آن لائن انڈیا ‘‘ میں خاتون صحافی ’’ نیتو چندر شرما ‘‘ کی نیوز رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ المناک انکشاف کیا گیا کہ بھارتی حکومت گذشتہ سات برس سے پاکستانی شہری ’’ رانا شوکت علی ‘‘ اور ان کی اہلیہ ’’ رخسانہ ‘‘ کو پانی پت جانے کے لئے ویزہ نہیں دے رہی اور سات سال کے طویل انتظار کے بعد جب 9 فروری 2015 کو ان دونوں میاں بیوی کو ویزہ دیا ہی گیا تو اس میں شرط عائد کی گئی کہ وہ نئی دہلی کے علاقے ’’ نوئیڈا ‘‘ اور ’’ گوتم بدھ نگر ‘‘ سے باہر نہیں جا سکتے حالانکہ 55 سالہ شوکت علی اور ان کی اہلیہ ’’ پانی پت ‘‘ جانے پر مصر تھے کیونکہ 18 فروری 2007 کو سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ان کے پانچ بچے ہندو دہشتگردی کی نذر ہو گے تھے جنہیں بھارتی صوبہ ہریانہ کے شہر پانی پت میں ہی مبینہ طور پر دفنا دیا گیا تھا ۔
یاد رہے کہ 18 فروری 2007 کو دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس جب پانی پت کے قریبی ریلوے اسٹیشن ’’ دیوانہ ‘‘ کے نواح سے گزر رہی تھی تو اس کی دو بوگیوں کو بم سے مکمل طور پر اڑا دیا گیا تھا اور خود بھارتی تفتیشی اداروں ’’ ’’ این آئی اے ‘‘ اور ’’ سی بی آئی ‘‘ کی تحقیقات کے مطابق اس گھناؤنے جرم میں انڈین آرمی کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ’’ شری کانت پروہت ‘‘ ، ’’ میجر اپادھیا ‘‘ ، اور بجرنگ دل کی خاتون ’’ پرگیا ٹھاکر ‘‘ اور ’’ سوامی اسیمانند ‘‘ ملوث تھے ۔ بھارتی عدالت میں سوامی آسیمانند نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ 164 کے تحت اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی میں نہ صرف مذکورہ افراد شامل تھے بلکہ اس کی اجازت ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے سربراہ ’’ موہن بھاگوت ‘‘سے ذاتی طور پر بھی لی گئی تھی ۔
اس بد قسمت ٹرین میں سو سے زائد پاکستانی شہری جاں بحق ہو گئے تھے ، اگرچہ ہندوستانی سرکاری اعداد و شمار میں ان کی تعداد 68 بتائی گئی جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے ۔ انہی مرنے والوں میں رانا شوکت علی اور ’’ رخسانہ ‘‘ کے پا نچ بچے بھی تھے جن میں 15 سالہ عائشہ ، 13 سالہ بلال ، 11 برس کے امیر حمزہ ، 6 سال کا عبدالرحمن اور چار برس کی عاصمہ بھی شامل تھی اور یہ بد نصیب والدین اپنے بچوں کی قبروں پر جا کر فاتحہ اور قرآن خوانی کرنا چاہتے تھے مگر دہلی کی سفاکی ملاحظہ ہو کہ سات سال تک تو ان کو ویزہ ہی نہیں دیا گیا اور جب ایک انسان دوست بھارتی شہری اور انسانی حقوق کی تنظیم ’’ ساؤتھ ایشین فورم ‘‘ کے کنوینئر ’’ اشوک رندھاوا ‘‘ کی مسلسل کوششوں سے فروری 2015 میں ان کو ویزہ دیا ہی گیا تو پانی پت جانے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا گیا ۔ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے بے حسی کا یہ مظاہرہ ایسا ہے جس کے سامنے سفاکی اور سنگ دلی کے الفاظ بھی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں اور شائد اس طرزِ عمل کا صحیح احاطہ کرنے کے لئے ڈکشنری میں موزوں الفاظ ڈھونڈنا بھی مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
ہندوستان کا یہ غیر انسانی رویہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ سات اپریل کو بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مفتی کی دہلی میں ہوئی ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا کہ مقبوضہ ریاست میں کشمیری پنڈتوں کے لئے علیحدہ بستیاں تعمیر کی جائیں گی ۔ ظاہر ہے یہ اتنا سنگین معاملہ ہے جس کے خلاف کشمیری عوام کے تمام طبقات کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا اور تمام حریت پسند قائدین بشمول ’’ سید علی گیانی ‘‘ ، ’’ میرا واعظ عمر فاروق ’’ ، ’’ یاسین ملک ‘‘ ،’’ حزب المجاہدین کے سربراہ ’’ سید صلاح الدین ‘‘اور دیگر کی جانب سے دہلی سرکار کو وارننگ دی گئی کہ کشمیری عوام د ہلی سرکار کو کسی صورت اس امر کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسرائیل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری برہمنوں کے لئے الگ بستیاں تعمیر کریں اور یوں دھیرے دھیرے اسرائیلی ماڈل پر ہی آبادی کا تناسب تبدیل کر کے کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں آہستہ آہستہ اقلیت میں تبدیل کر کے رکھ دے ۔
یاد رہے کہ 1989 میں تحریک آزادی میں شدت آنے کے بعد سے چند ہزار کشمیری پنڈت بھارتی سرکار کے ایما پر مقبوضہ ریاست سے چلے گئے تھے اور ’’ بی جے پی ‘‘ نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کر رکھا تھا کہ حکومت میں آنے کی صورت میں ان کو واپس لا کر آباد کیا جائے گا ۔
اس ضمن میں قا بلِ توجہ امر یہ ہے کہ مقبو ضہ کشمیر کے کسی بھی ر ہنما نے یہ نہیں کہا کہ کشمیر ی پنڈ تو ں کو و ا پس نہیں آ نے د یا جا ئے گا بلکہ سب نے دعوت دی ہے کہ یہ لوگ واپس آ کر اپنے اپنے گھروں میں رہیں مگر چونکہ دہلی کے حکمر ا نو ں کا تو ا س سلسلے میں ا پنا ا یجنڈ ہ ہے اس لئے وہ اسرائیلی طرز پر الگ سے برہمن بستیاں آباد کرنے کے خواہش مند ہیں ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے پنڈت ’’ بھوشن بزاز ‘‘ سمیت سبھی نے الگ بستیوں کی مخالفت کی ہے ۔ یوں اس بھارتی طرزِ عمل کے خلاف پورا مقبوضہ کشمیر سراپا احتجاج ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکمران اپنی ظالمانہ روش میں کوئی تبدیلی لاتے ہیں یا روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔
تیرہ اپریل کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )