Newspaper Article 16/07/2014
بھارت میں ۱۶ مئی ۲۰۱۴ کے انتخابی تنائج کے بعد جب ۲۶ مئی کو وزیرِ اعظم مودی نے حکومت سنبھالی تو ایک تاثر یہ تھا کہ اب نہ صرف جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو گی بلکہ ہندوستان کے عام آدمی کے روز مرہ کے مسائل کے حل کی جانب بھی مثبت پیش رفت ہو گی کیونکہ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران مودی اور ان کے ساتھیوں نے بھارتی عوام کو یہ امید دلائی تھی کہ بس ان کے حکومت سنبھالنے کی دیر ہے،عام لوگوں کے سبھی دلدّر دور ہو جائیں گے۔اور ’’ اچھے دن‘‘ اب ہندوستانی عوام کی دہلیز پر کھڑے ہیں ۔
اسی وجہ سے بھارت کے طول و عرض میں بی جے پی کو شاندار کامیابی ملی اور وہ ۲۸۲ لوک سبھا سیٹیں حاصل کر کے محض اپنے بل بوتے پر حکومت سنبھالنے کی پوزیشن میں آ گئی کیونکہ لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لئے صرف ۲۷۲ سیٹوں کی ضرورت تھی۔اور بی جے پی کی قیادت والے انتخابی اتحاد ’’این ڈی اے‘‘کو تو ۳۳۶ سیٹیں مل گئی تھیں ۔
بہر کیف اچھے دنوں کے منتظر بھارتی عوام نے ۱۱ جولائی کو حکومت کا پہلا بجٹ بڑی امیدوں کے ساتھ سنا۔انھیں امید ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ مودی کی قیادت میں وزیرِ خزانہ ارون جیتلی‘‘انھیں بجٹ کے حوالے سے بڑی خوشخبری سنائیں گے مگر بجٹ تقریر سننے کے بعد عام بھارتیوں کی امیدوں پر پوری طرح اوس پڑ گئی اور انہیں لگا کہ ’’خواب تھا جو کچھ کے دیکھا،جو سنا افسانہ تھا‘‘۔
دہلی سرکار نے ریل کرایوں میں تو مسافروں کے لئے چند روز پہلے ہی ۶۔۱۴فیصد اضافہ اور سامان کے کرایوں میں ۶۰۵ فیصد بڑھوتری کر کے اپنے عزائم کسی حد تک واضح کر دیے تھے مگر اس کے باوجود بجٹ کے حوالے سے عام بھارتی کسی معجزے یا چمتکار کے منتظر تھے واضح رہے کہ بجٹ میں لڑکیوں کی تعلیم اور مدرسوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے سو ،سو کروڑ جبکہ گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمے کی تعمیر کے لئے پورے دو سو کروڑ رکھے گئے ہیں اس کے علاوہ وزیرِ خزانہ نے انھیں یہ نوید سنائی کہ جنگی بجٹ میں تقریباً ۱۳ فیصد اضافہ کر کے اسے ۲۲۹۰۰۰ کروڑ تک پہنچا دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ بھارت میں اسلحہ ساز فیکٹریوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری یعنی ’’ایف ڈی آئی‘‘کی شرح ۲۶ فیصد سے بڑھا کر ۴۹ فیصد کر دی گئی ہے اور یوں غیر ملکی اسلحہ ساز اداروں کو کھلی چھوٹ اور دعوتِ عام ہے کہ بھارت میں آئیں اور دھڑا دھڑ اسلحہ اور گولا بارود بنائیں تا کہ ہندوستانی عوام کے اچھے دن قریب سے قریب تر آ جائیں۔اعتدال پسند بھارتیوں کے علاوہ دنیا بھر کے امن پسند حلقے حیران بھی ہیں اور کسی قدر پریشان بھی کہ خطے کے امن و سلامتی اور عام لوگوں کی بھلائی کا یہ نسخہ آخر دہلی کے حکمرانوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے۔
بھارت کے پڑوسی ممالک خصوصا پاکستان کی حکومت اور عوام نے گذشتہ برسوں میں بھرپور کوشش کی ہے کہ خوشگوار ہمسائیگی کے اصولوں کے تحت ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہو سکیں مگر بد قسمتی سے دہلی کی نئی سرکار کے طور اطوار بھی اس ضمن میں اپنے پیش روؤں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتے کیونکہ جس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے تنازع کے حوالے سے تعینات اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو دہلی میں واقع ان کے دفتر سے بے دخل کر کے کہا ہے کہ وہ اپنا کوئی نیا ٹھکانہ ڈھونڈیں کیونکہ ۱۹۷۲ کے شملہ معاہدے کی وجہ سے اب کشمیر کے ضمن میں اقوامِ متحدہ کا کوئی کردار باقی نہیں بچا۔اس طفلانہ مگر انتہائی اشتعال انگیز قدم پر پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بجا طور پر تشویش ظاہر کی ہے اور اپنا ٹھوس موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی سرکار کے ایسے رویے سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود قدیم ترین تنازع یعنی کشمیر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بہر کیف ایک جانب بھارتی عوام اپنی امیدوں پر پانی پھرتا دیکھ کر کہہ رہے ہیں ۔
اسی بھروسے پر گزر رہی ہے اب عمر رواں ہماری
کبھی تو بدلیں گے دن ہمارے،کبھی تو راس آئے گا زمانہ
بھارت کے ہمسایہ ممالک اور دیگر امن پسند حلقے یہ توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارت کے حکمران عقلِ سلیم کا دامن تھامیں گے اور علاقے میں باہمی اعتماد سازی اور پائیدار امن کے قیام کی خاطر مثبت روش اپنائیں گے تا کہ کشمیر سمیت سبھی تنازعات اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ ڈھنگ سے حل ہو سکیں اور خطے کے عوام ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ سکے۔
سولہ جولائی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)