Newspaper Article 31/01/2014
5 فروری 2014 کو پاکستان کے طول و عر ض میں یومِ یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر پاکستان اور آزاد کشمیر میں عام تعطیل ہوتی ہے اور پاکستانی قوم اپنے عہد کی تجدید کرتی ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کی تحریکِ آزادی میں اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گی۔یاد رہے کہ پہلی بار 1990 میں یہ دن منایا گیا تھا ،جب اس وقت جماعت اسلامی کے رہنما قاضی حسین احمد مرحوم اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کے خلاف قومی سطح پر یومِ احتجاج منانے کا اعلان کیا۔
چونکہ پاکستان میں کشمیر کاز کے حوالے سے مکمل اتفاقِ رائے پایا جا تا ہے اسی وجہ سے اس وقت پاکستان کی سربراہِ حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے سرکاری طور پر 5 فروری 1990 کو تعطیل کا اعلان کیا اور یوں قومی سطح پر یہ دن منانے کی روایت کا آغاز ہوا جو آج تک ہر برس انتہائی با وقار اور قومی جذبے سے سرشار ہو کر منایا جاتا ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کی وطنِ عزیز کے تمام حلقے اپنے کشمیری بھائیوں کی جانب سے جاری تحریکِ آزادی کی سفارتی اور اخلاقی حمایت کے لئے خود کو بجا طور پابند تصور کرتے ہیں کیونکہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اس وجہ سے پچھلے 67 برس کی تاریخ شاہد ہے کہ تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود پاکستانی قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے۔
دوسری جانب دہلی سرکار مقبوضہ ریاست میں ریاستی سرپرستی میں کشمیری قوم کے خلاف انسانی حقوق کی بد ترین پا مالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے جس کا تازہ مظاہرہ چند روز پہلے تب ہوا جب ’’ ضلع اننت ناگ‘‘ کے مقام ’’پتھری بل‘‘ کے قتلِ عام میں ملوث انڈین آرمی کے 5 افسران کے خلاف جاری مقدمہ ختم کر دیا گیا اور قاتلوں کو بھارتی حکومت ،فوج اور عدلیہ نے گویا’’کلین چٹ‘‘CLEAN CHIT دیتے ہوئے مقبوضہ ریاست کے عوام کے خلاف قابض ہندوستانی فوج جو قتل و غارت گری کا کھلا پروانہ دے دیا۔
یاد رہے کہ ان پانچ انڈین افسروں کا تعلق ’’راشٹریہ رائفلز‘‘ کی 7 ویں بٹالین سے ہے۔ان ملزم افسروں میں ’’برگیڈیئر اجے سکسینہ‘‘،’’لیفٹنٹ کرنل برجندر پرتاب سنگھ‘‘،’’میجر سوربھ شرما‘‘،’’میجر امیت سکسینہ‘‘ اور ’’صوبیدار ادریس خان‘‘ شامل ہیں۔
بھارتی تفشیشی ادارے CBI نے طویل تحقیق اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے دباؤ پر یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ انڈین آرمی آفیسرز 2000 میں 5 بے گناہ کشمیریوں کے کھلے قتل میں ملوث تھے ۔2003 میں CBI نے فردِ جرم عائد کر کے ان پانچوں کو قاتل قرار دیا۔واضح رہے کہ ان بھارتی افسروں کے ہاتھوں 26 مارچ 2000 کو پانچ کشمیری شہید کیے گئے تھے۔اس وقت بھارتی فوج نے ان بے گناہ شہیدوں کو 21 مارچ 2000 کو ’’چٹی سنگھ پورہ‘‘ میں قتل ہونے والے سکھوں کے قتل میں ملوث قرار دے دیا تھا۔تب امریکی صدر ’’بل کلنٹن‘‘ بھارت کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔بعد کی تحقیقات ا ور DNA رپورٹوں نے ثابت کیا کہ مقتول کشمیری بالکل بے گناہ تھے۔
دوسری جانب مارچ 2012 میں بھارتی سپریم کورٹ نے ’’برہمنی انصاف‘‘ کی اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ان بھارتی افسروں کے خلاف قتل کا مقدمہ انڈین آرمی کی درخواست پر عام عدالت سے ملٹری کورٹ آف انکوائری میں منتقل کرنے کی اجازت دے دی یوں قاتل ہی منصف بنا دیے گئے جس کے نتیجے میں 24 جنوری 2014 کو انڈین آرمی نے یہ مقدمہ ختم کر دیاجس پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں سمیت خود بھارت کے بھی بعض اعتدال پسند حلقوں نے سخت تنقید کی ۔
کثیر الاشاعت انگریزی روز نامے ’’دی ہندو‘‘THE HINDU نے اپنی 27 جنوری کی اشاعت میں اس بھارتی نا انصافی کے خلاف اداریہ بھی لکھا مگر دنیا کی سب کی بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارت کی تو پوری تاریخ ایسی نا انصافیوں سے عبارت ہے ۔لہذا بظاہر دہلی کے حکمران طبقات سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی روش پر نظر ثانی کریں گے۔
بہر کیف پانچ فروری 2014 کو یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستانی قوم اپنے میڈیا ،سول سائٹی اور اجتماعی رائے عامہ سے یہ امید رکھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ کشمیری قوم کے خلاف جاری بھارت کی اس غاصبانہ روش کی حوصلہ شکنی کی خاطر فعال انسانی طرزِ عمل اپنائے۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)