Newspaper Article 22/06/2014
قوموں کی زندگی میں بعض ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جنہیں زندگی بھر کی جمع پونجی قرار دیا جا سکتا ہے ۔پاکستانی قوم پر بھی کئی ایسے ہی ادوار گزرے ہیں ۔انہی میں سے ایک ۶ستمبر ۱۹۶۵ سے ۲۳ ستمبر ۱۹۶۵کے ایسے ایام آئے جنہیں اس قوم کا سرمایہ حیات قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ کوئی راز بات نہیں کہ ۶ستمبر ۱۹۶۵ کی علی الصبح بھارتی فوج نے سبھی بین الاقوامی ضابطوں اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بین الاقوامی سرحد عبور کی اور پاکستان کے دل لاہور پر حملہ کر دیا۔تب بھارتی فوج کے سربراہ ’’جے این چوہدری‘‘ تھا اور وزیرِ اعظم ’’لال بہادر شاستری‘‘ جبکہ افواجِ پاکستان کے سالار جنرل محمد موسیٰ تھے ۔صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے 6 ستمبر کی دوپہر ریڈیو پر قوم سے جو خطاب کیا ۔اس کے الفاظ اور لہجے کی حرارت نے پاکستانیوں میں زندگی کی نئی لہر پھونک دی۔صدر پاکستان کے یہ الفاظ ’’بزدل دشمن کو شاید معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے؟۔میرے عزیر ہم وطنو کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔اب ہم اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لئے خاموش نہیں ہو جاتیں۔عزیر ہم وطنو اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی و ناصر ہو‘‘۔
جو افراد اپنی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں یادیں تا حال محفوظ ہوتی ہیں وہ بخوبی ادراک کر سکتے ہیں کہ ان دنوں قوم کے بچوں ،بوڑھوں اور جوانوں کی جرات کا کیا عالم تھا۔خواتین اور کم عمر بچے جوش و ولولے کی چلتی پھرتی تصویر تھے ۔ہر گلی کوچے میں ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا،اب وقتِ شہادت ہے آیا،اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔
اس ماحول اور ولولہ آفرین جذبات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں کس طرح مسلمان ایک آندھی اور طوفان کی طرح اٹھے اور نہایت مختصر وقت میں مشرق و مغرب پر چھا گئے تھے اور مخالفین ان کی ہیبت سے لرزتے تھے۔ان 17 دنوں تک پاکستان کے طول و عرض میں کوئی چوری ہوئی نہ ڈاکہ پڑا کسی کی آبرو ریزی ہوئی اور نہ قتل۔کاش اس وقت کے حکمران اس قومی جذبے کو محفوظ کر کے کوئی منظم شکل دے پاتے۔اگر ایسا ہوتا تو یقیناًیہ ملک تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے چند مضبوط ترین اور خوشحال ملکوں کی صف میں جا کھڑا ہوتا۔مگر ،اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
بہرحال قومی زندگی ایک مخصوص رفتار سے چلتی رہی۔اس میں بہت سے نشیب و فراز آئے ۔مگر بہ حیثیت مجموعی قوم زندہ و توانا رہی۔
بہر حال قوموں کی زندگی میں مشکلات آتی رہتی ہیں ۔البتہ ان کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔کبھی یہ کھلی بیرونی جارحیت کی شکل میں آتی ہیں تو کبھی اندرونی خلفشار کی صورت میں۔گذشتہ چند برسوں سے بہت سی قوتیں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر پاکستان میں بد امنی کو فروغ دینے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہیں۔کبھی اسلام اور کبھی کسی دوسری بنیاد پر ملک میں بے یقینی کی فضا قائم کرنے کی ایسی بھرپور مہم چل رہی تھی کہ عجیب گومگو کی کیفیت سی طاری ہو چلی تھی۔گویا امیرالاسلام ہاشمی کے الفاظ میں
شاہین کا جہان آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے۔
ظاہر ہے یہ بے اعتباری اور انتشار کی کیفیت انتہائی خطرناک تھی لہذا اس مرحلے پر سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک مضبوط فیصلہ کیا اور پاکستان کی مسلح افواج نے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے اس شورش پر کاری ضرب لگانے کا حتمی فیصلہ کیا اور یوں آپریشن ضربِ عضب کے نام سے اندرونی اور بیرونی سازشوں کو کچلنے کے لئے پاک افواج کے جانباز آگے بڑھے ۔اور یہ مقدس مشن ہنوز جاری ہے اور انشاء اللہ جلد کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔
توقع کی جانی چاہیے کہ قوم کا ہر فرد اس قومی فریضے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالے گا کیونکہ اقبال کے الفاظ میں
فضائےِ بدر پیدا کر ،فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)