Skip to content Skip to footer

بھارت کی سرحد پاد دہشتگردی

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

مودی کا حالیہ اعتراف جرم اس حوالے سے تو یقیناًاہم ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھارتی کردار کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ مگر وطنِ عزیز کے ساتھ ساتھtsd3 عالمی برادری کو یہ امر بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ بھارت کے بالا دست طبقات اپنے تمام ہمسایوں خصوصاً پاکستان کے خلاف انتہائی منفی ذہنیت رکھتے ہیں اور اس ضمن میں محض مودی یا ’’ بی جے پی ‘‘ ہی نہیں بلکہ کانگریس بھی پاک دشمنی میں اسی حد تک ملوث رہی ہے لہذا اس سے بھی کسی خیر کی توقع عبث ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب ہم اپنے اندرونی معاملات کو مزید بہتر کرنے کی طرف سنجیدہ توجہ دیں دوسری طرف عالمی برادری کے سامنے بھارت کے ان تمام اعمال کو دستاویزی شواہد کے ساتھ عالمی برادریtsd4 کے سامنے لایا جائے ۔
اس ضمن میں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ چھبیس نومبر 2008 کو ممبئی واقعات کے فوراً بعد اس وقت کے انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’ ایم کے نارائنن‘‘ نے اجلاس طلب کیا جس میں بھارتی انٹیلی جنس کے تمام اداروں سے کہا گیا کہ پاکستان کے اندر حملے کرنے کے طریقے اور راستے تلاش کیے جائیں اور اس سلسلے میں خصوصی دستہ تشکیل دیا جائے ۔ تب انڈین آرمی چیف جنرل دیپک کپور تھے ۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنے کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دیے جانے کے آئیڈیے پر ہوم ورک ہوتا رہا ۔ مارچ 2010 میں وی کے سنگھ نے انڈین آرمی کی سربراہی سنبھالی ۔ تب ملٹری انٹیلی جنس کے ڈی جی ’’ لیفٹیننٹ جنرل آر کے لُومبا ‘‘ نے نئے آرمی چیف جنرل سنگھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انڈین آرمی کے خصوصی دستے کی تشکیل کا ہوم ورک مکمل ہو چکا ہے ۔ آرمی چیف جنرل سنگھ نے اس منصوبے پر عمل کی فوری منظوری دے دی ۔ تب ’’جنرل لُومبا ‘‘نے ’’ کرنل منتیشور ناتھ بخشی ‘‘ کا انتخاب نئے دستے کی سربراہی کے لئے کیا اور اسے کہا کہ وہ فوری طور پر ٹیکنیکل سپورٹ ڈویژن یعنی ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ کے نام سے اس نئے خونی دستے کو کھڑا کریں ۔ 
کرنل بخشی بھارتی فوج کے ان چند افسران میں سے ہے جنہیں ملٹری اکیڈمی سے کمیشن حاصل کرنے کے فوراً بعد باصلاحیت جان کر ملٹری انٹیلی جنس کے لئے منتخب کر لیا گیا تھا اور وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی تعیناتی کے دوران بھارتی نقطہ نظر سے کئی کارنامے انجام دے چکا تھا ۔ بخشی نے اپنے ساتھی کے طور پر کرنل ’’ وینے اکا بیڈی ‘‘ کو لیا جو ’’ را ‘‘ میں طویل عرصے تک خدمات انجام دے چکے تھے اور پاکستانی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور پاکستان کے خلاف ایک خفیہ آپریشن میں موصوف کو بہادری کا ایک ایوارڈ بھی مل چکا تھا ۔ ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ میں شامل کیے جانے والا دوسرا فرد ’’ لیفٹیننٹ کرنل سارویش دھون ‘‘ تھا ۔ وہ تین ہزار سے زائد مرتبہ سکائی ڈائیز ( ہوائی جہاز سے چھلانگ لگانا ) کا تجربہ رکھتا تھا اور کارگل جنگ اور سوپور ( مقبوضہ کشمیر ) میں کئی کشمیری مجاہدین کو شہید کر چکا تھا ۔
تیسرے نمبر پر اس یونٹ میں ’’ کرنل الفریڈ ‘‘ کو شامل کیا گیا جسے مذاکراتی امور کا ماہر سمجھا جاتا تھا اور جب وہ 28 آسام رائفلز میں تھا تو اس نے آزادی پسند تنظیم ’’ الفا کے کئی tsd8افراد کو بھارتی ایجنٹ بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس کے بعد ’’ لیفٹیننٹ کرنل ’’ زِر ناتھ ‘‘ کو اس بنا پر شامل کیا گیا کہ اس نے شمال مشرقی بھارت میں تعیناتی کے دوران میانمر کے اندر کئی بھارتی ایجنٹ بنائے تھے ۔ بھارتی مبصرین کے مطابق ’’ کرنل بخشی ‘‘ کا اگلا انتخاب لیفٹیننٹ کرنل ’’ انوراگ ‘‘ تھا جو شوگر کا مریض ہونے کے سبب بظاہر قدرے موٹے جسم کا مالک تھا اور حلیے سے نہیں لگتا تھا کہ یہ کامیاب جاسوس بھی ہو سکتا ہے مگر انوراگ جیسا لحیم شحیم شخص چھڑی کے سہارے مقبوضہ کشمیر کے دشوار گزار پہاڑی راستوں پر روزانہ کئی میل پیدل چلتا تھا ۔ اس کی سب سے بڑی مہارت نئے ایجنٹوں کا انتخاب اور اپنے مہرے تلاش اور تیار کرنا تھی ۔ 
اس خونی دستے نے کچھ ہی عرصے کے دوران پاکستان کے اندر بھی دہشتگردی کے آٹھ آپریشن انجام دیے خصوصاً 8 مارچ 2011 کو فیصل آباد کے ایک سی این جی سٹیشن پر بم دھماکہ کیا گیا جو ’’ آئی ایس آئی ‘‘کے مقامی دفتر سے متصل تھا اور اس واردات میں متعدد بے گناہ افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ 
جنرل لُومبا کے بقول یہ ٹیم پاکستان میں نہایت ’’ شاندار ‘‘ کارنامے انجام دے رہی تھی اور مقبوضہ کشمیر میں بھی اس نے اپنے بہت سے آلہ کار ’’ بھارتی اثاثوں ‘‘ کی شکل میں تیار کر لیے تھے ۔ مگر اسی دوران 2011 کے آخر میں انڈین آرمی چیف وی کے سنگھ اور بھارتی وزیر دفاع ’’ انٹونی ’’ کے مابین باہمی اختلافات شدت اختیار کر گئے جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنرل وی کے سنگھ چاہتا تھا کہ اس کو ایک سال مزید مدت ملازمت میں توسیع دی جائے علاوہ ازیں اس کے جانشین کے طور پر ’ جنرل بکرم سنگھ ‘‘ کو تعینات نہ کیا جائے ۔
اسی وجہ سے اس نے ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی بعض شخصیات کو مہرہ بنا کر ’’ لیفٹیننٹ جنرل بکرم سنگھ ‘‘ کے خلاف بھارتی عدالتوں میں کئی مقدمات درج کرائے ۔ اس وجہ سے بھارتی وزیر دفاع ’’ انٹونی ‘‘ ، ’’ جنرل بکرم سنگھ ‘‘ اور دوسرے سینئر ترین ’’ لیفٹیننٹ جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ ‘‘ ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ اور جنرل وی کے سنگھ کے خلاف ہو گئے ۔ 31 مارچ 2012 کو جنرل وی کے سنگھ مزید توسیع پائے بغیر ریٹائر ہو گئے اور نئے آرمی چیف بکرم سنگھ نے انڈین آرمی کے اس خصوصی یونٹ کے خلاف تحقیقات کے لئے ملٹری انٹیلی جنس کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ’’ ونود بھاٹیہ ‘‘ کی سربراہ میں ایک ٹیم تشکیل دی جس کی رپورٹ کے بعد یہ حقائق سامنے آئے کہ کرنل بخشی ‘‘ اور اس کے جتھے نے چالیس کروڑ سے زائد ایسے اخراجات کیے جن کا ریکارڈ آڈٹ میں نہ پیش کیا جا سکا ۔ یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ اسی تحقیقات میں یہ امر بھی منظرِ عام پر آیا کہ ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ نے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے کئی آپریشن کیے ۔ یاد رہے کہ جنرل بکرم سنگھ نے یہ تحقیقات پاکستان سے محبت کی غرض سے نہیں کی تھیں بلکہ اس کا اصل مقصد ’’ جنرل وی کے سنگھ ‘‘ سے ذاتی بدلہ لینا تھا ۔ 
یاد رہے کہ ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ کے کل ارکان کی تعداد 36 تھی جن میں سے محض ایک فوجی کلرک ’’ شیام داس ‘‘ سویلین تھا جس کے پاس تنخواہوں وغیرہ کا حساب تھا ۔ شیام داس کو مئی 2012 میں جنوبی بھارت کے مقام ’’ کوچی ‘‘ سے گرفتار کر لیا گیا اور اس پر الزام لگا کہ اس نے انڈین آرمی کی انتہائی خفیہ معلومات کو فاش کیا ہے ۔ اس کے خلاف انڈین آرمی نے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا ۔ بعد میں الزامات’’ صحیح‘‘ ثابت ہونے پر جنرل کورٹ مارشل کا حکم دیا گیا اور ان دنوں دہلی چھاؤنی میں کورٹ مارشل کی یہ کاروائی جاری ہے ۔ استغاثہ کی جانب سے شیام داس کے خلاف چار سو صفحات سے زیادہ کی چارج شیٹ درج کرائی گئی ہے اور 14 سرکاری گواہ بھگت چکے ہیں ۔ اسی ضمن میں یہ امر بھی اہم ہے کہ کرنل بخشی کو یکم مارچ 2015 کو تین سیکورٹی گارڈز پر مشتمل خصوصی سیکورٹی مہیا کر دی گئی ۔ کیونکہ اس نے وزیر دفاع سے تحریری درخواست کی تھی کہ اسے پاکستان اور کشمیری مجاہدین سے شدید خطرہ ہے ۔ 
چار اپریل 2015 کو کرنل بخشی نے بھارتی وزیر دفاع منوہر پریارکر کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ شیام داس کے خلاف جاری جنرل کورٹ مارشل میں کرنل بخشی کو گواہی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ اگر بخشی نے گواہی میں حقائق بیان کیے تو شیام داس کو تو فوجی عدالت سے سزا یقیناًہو جائے گی مگر بھارت کے تعلقات نہ صرف اپنے پڑوسی ملکوں سے بگڑ سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارتی امیج اس حدتک متاثر ہو سکتا ہے کہ ہندوستان اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کی جو کوششیں کر رہا ہے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ یوں عالمی اور بین الاقوامی محاذ پر بھارت کا امیج ایک عالمی دہشتگرد کے طور پر ابھر سکتا ہے ۔
یاد رہے کہ کرنل بخشی کی پوسٹنگ ان دنوں بھارت چین کی لداخ سرحد پر ’’ کارو ‘‘ کے مقام پر ہے جبکہ لیفٹیننٹ کرنل ونے اکا بیڈی ’’ شیلانگ‘‘ کے مقام پر ’’ ایم ای ایس ‘‘ میں ہے ۔ کرنل سارویش جھارکھنڈ میں تعینات ہے ۔ علاوہ ازیں الفریڈ راجستھان میں نیشنل کیڈٹ کورٹ سے منسلک ہے جبکہ کرنل ’’ زیر ناتھ ‘‘ کرناٹک میں انڈین آرمی کے پولی کلینک سے وابستہ ہے ۔ اسی طرح کرنل انوراگ مدھیہ پردیش میں انڈین آرمی کی میڈیکل انتظامیہ سے منسلک ہے ۔ یوں یہ پانچوں نسبتاً غیر اہم مناصب پر تعینات ہیں ۔ ان سب میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے ان سب نے گذشتہ تین برسوں میں ایک سے زائد مرتبہ خود کشی کی بھی کوشش کی ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق ان میں اذیت پسندی کے زیادہ رجحانات ہیں ۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق غالباً انھوں نے ’’ ٹی ایس ڈی ‘‘ نامی خونی دستے میں اپنی شمولیت کے دوران پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں اتنے بڑے پیمانے پر غیر انسانی مظالم انجام دیے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی حد تک نفسیاتی مریض بن گئے ہیں ۔ 
حرفَ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بھارت چھوٹی ذہنیت کا ایک بڑا ملک ہے اور دہلی کے حکمرانوں کی حرکات کو دیکھ کر سمجھ آتا ہے کہ ماضی میں کس وجہ سے یہ صدیوں تک دوسروں کا محکوم رہا اور اب بھی انھوں نے اگر اپنی روش میں خاطر خواہ ڈھنگ سے تبدیلی نہ کی تو اس امر کے واضح امکانات ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے ۔ مودی اور ان کے ہمنواؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ اس امر کی عملی تفسیر بن کر نہ رہ جائیں 

کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن       کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی

پندرہ جون کو ڈیلی پاکستان میںں شائع ہوا۔


( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں ) 

 

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements