Newspaper Article 02/06/2015
اقلیتوں کے خلاف بھارتی ریاستی دہشتگردی کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں جون 1984 کے پہلے ہفتے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جب مسز اندرا گاندھی کے دور میں بھارتی فوج نے تین سے آٹھ جون تک سکھوں کے متبرک مقام ’’ گولڈن ٹیمپل ‘‘ کی حرمت کو بری طرح پامال کیا اور محض ایک ہفتے کے اندر ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ آپریشن بلیو سٹار کے نام سے انڈین آرمی کی اس سفاکانہ مہم میں سنت جرنیل سنگھ’’ بھنڈرانوالہ‘‘ سمیت بہت سے سکھ رہنما ہلاک کر دیئے گئے ۔
امرتسر میں واقع ’’ گولڈن ٹیمپل ‘‘ اور ’’ دربار صاحب ‘‘ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور بھارت سے علیحدگی کے خواہشمند سکھوں پر اتنے غیر انسانی مظالم ڈھائے گئے جن کی مثال اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں بھارتی سکھوں میں دہلی سرکار کے خلاف نفرت کے جذبات اتنے شدت اختیار کر گئے کہ انڈین آرمی کی بہت سی سکھ یونٹوں نے اجتماعی طور پر بغاوت کر دی مگر بھارتی حکمرانوں نے اپنی بے پناہ فوجی قوت کے بل بوتے پر سکھ قوم کی اس مزاحمت کو وقتی طور پر کچل دیا ۔ مگر سکھ عوام و خواص میں دہلی کے مرکزی اقتدار کے خلاف نفرت اس قدر شدید تھی کہ محض چار ماہ بعد ہی یعنی 31 اکتوبر 1984 کو انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے دو سکھ محافظوں ’’ ستونت سنگھ ‘‘ اور ’’ بے انت سنگھ ‘‘ کے ہاتھوں قتل ہو گئیں ۔
اندرا گاندھی کے قتل کے فوراً بعد پورے بھارت میں بالعموم اور دہلی میں بالخصوص سکھ قوم کے خلاف اونچی ذات کے ہندوؤں نے ایک قیامت برپا کر دی اور صرف تین دن کے اندر چھ ہزار سے زیادہ سکھ خواتین اور بچوں کو تہ تیغ کر دیا گیا ۔ اس صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ بھی تھا کہ اس وقت کے مرکزی وزراء ’’ جگدیش ٹائٹلر ‘‘ ، ’’ ایچ کے ایل بھگت ‘‘ اور ’’ سجن کمار ‘‘ سمیت بہت سے حکومتی رہنماؤں نے بذاتِ خود سکھوں کی نسل کشی کے عمل میں حصہ لیا اور پورے بھارت میں سکھوں کی جان و مال اس قدر غیر محفوظ ہو گئیں کہ ’’خشونت سنگھ ‘‘ اور جنرل ’’ جگجیت سنگھ اروڑا ‘‘ (جو سانحہ مشرقی پاکستان میں انڈین آرمی کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے ) کی سطح کے سکھوں کو بھی اپنی جان بچانے کے لئے ایک غیر ملکی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی مگر مسز گاندھی کے جانشین اور بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ان ہزاروں سکھ خواتین اور بچوں کے قتلِ عام کو جائز ٹھہراتے یہاں تک کہا کہ جب کسی بڑے درخت کو کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو اس کی دھمک سے ارد گرد کی زمین میں کچھ تو ارتعاش پیدا ہوتا ہی ہے اور درخت کی زد میں آنے والی گھاس پھوس ختم ہو جاتی ہے ۔
اس حوالے سے یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آپریشن بلیو سٹار کے وقت انڈین آرمی چیف ’’ جنرل اے ایس ویدیا ‘‘ جو 31 جولائی 1983 تا 31 جنوری 1986 انڈین آرمی کے تیرھویں آرمی چیف کے طور پر کام کرتے رہے ، ان کو دس اگست 1986 کو دو سکھ نوجوانوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں بلیو سٹار آپریشن کی کمانڈ کرنے والے ’’لیفٹیننٹ جنرل ’’ کلدیپ سنگھ براڑ ‘‘ اور ان کی اہلیہ پر 30 دسمبر 2012 کو لندن میں قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے ۔
اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا دنیا بھر میں رہنے والے سکھوں نے اس بھارتی بربریت کو فراموش نہیں کیا اسی وجہ سے وہ بھارت سرکار کے خلاف انتہائی منظم انداز میں مہم چلا رہے ہیں ۔ امریکہ میں قائم سکھ حقوق کی تنظیم ’’سکھس فار جسٹس‘‘ نے 31 اکتوبر 2013 کو مسز گاندھی کے قتل کی برسی کے موقع پر دس لاکھ سکھوں کے دستخطوں پر مبنی رٹ پٹیشن اقوامِ متحدہ کے ادارے ’’ یو این ایچ آر سی ‘‘ ( یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کونسل ) میں داخل کرائی جس میں اس عالمی ادارے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں ہونے والے سکھوں کے قتلِ عام کو عالمی سطح پر سکھوں کی نسل کشی ڈکلیئر کیا جائے اور اس انسانی المیے کے ذمہ دار بھارتی رہنماؤں کو خصوصی ٹربیونلز قائم کر کے قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔
علاوہ ازیں 6 جون 2014 کو اسی سکھ تنظیم نے عالمی سطح پر انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کے دستخط حاصل کرنے کے لئے ایک مہم چلائی ہے جس کو سکھ ریفرنڈم 2020 کا عنوان دیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق 2020 میں بھارت کے باہر بسنے والے 50 لاکھ سکھ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ بھارت کے زیر قبضہ پنجاب کو بھارت سے آزادی حاصل کر لینی چاہیے یا بھارتی غلامی کو ہی اپنا مقدر سمجھنا چاہیے ۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے اس خطے کی بد قسمت ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ ہندوستانی حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنے ماضی کے مظالم پر نادم ہونے کی بجائے انھوں نے اپنے یہاں بسنے والی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی ممالک کا جینا بھی محال کر رکھا ہے جس کی تازہ مثال 29 مئی کو مستونگ میں پیش آنے والا بربریت پر مبنی سانحہ ہے جس میں 22 بے گناہ انسانوں سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا گیا ۔
اس سے پہلے بھی ہندوستانی سرکار نے اپنی اس روش کو نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ان کے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ اپنے اس دہشتگردانہ طرزِ عمل پر کا فخریہ اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس صورتحال کا منطقی انجام کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنے کے لئے بہت زیادہ دانشور یا نجومی ہو نا ضروری نہیں کیونکہ پوری انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دوسروں کے راستے میں کانٹے بچھانے والے کے اپنے پاؤں سب سے پہلے زخمی ہوتے ہیں ۔
یکم جون کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )