Newspaper Article 16/06/2016
تحریر : ڈیڈیئر شودت
یہ تو اب واضح ہو ہی چکا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات ’’ ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘ اور ’’ ہیلری کلنٹن ‘‘ کے مابین ہی ہو گا اور ان دونوں میں سے کوئی
ایک شخصیت آنے والے کئی برسوں تک عالمی سفارت کاری کی راہیں متعین کرے گی ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اوبامہ فارن پالیسی کے شعبے میں ایک ملی جلی وراثت چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ خصوصاً پاک افغان معاملات کے حوالے سے ان کی وراثت اوسط درجے کی ہی کہلا سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے عہد میں طالبان کو شکست نہیں دے پائے بلکہ اب طالبان اس قابل ہو چکے ہیں کہ وہ گاہے بگاہے کابل پر بھی حملہ آور ہونے کی قوت حاصل کر چکے ہیں البتہ یہ بات اوبامہ کی کامیابی کہلا سکتی ہے کہ انھوں نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کو صدارتی چناؤ کے بعد خانہ جنگی میں مبتلا ہونے سے باز رکھنے میں کامیابی حاصل کی ۔ علاوہ ازیں اوبامہ نے چین اور پاکستان کی مدد سے طالبان اور کابل انتظامیہ کے مابین مذاکراتی عمل کا آغاز کر نے کا اچھا کام کیا ۔
مگر ’’ سٹیٹ آف یونین ‘‘ کے اپنے آخری خطاب میں جس انداز میں پاکستان اور افغانستان کو آئندہ کئی عشروں تک غیر مستحکم رہنے کی وعید سنائی ، یہ گویا ان کی جانب سے اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف تھا اور اس سے بخوبی ظاہر ہو گیا کہ وہ آنے والے صدر کے لئے کتنی مشکلات چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ایسے میں اگر ٹرمپ صدر بنتے ہیں تو ان کی پاک افغان پالیسی کیا ہو گی ، اس پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ٹرمپ نے مذکورہ خطے سے بہت دور اپنی انتخابی مہم چلائی ہے اس وجہ سے یہ تاثر عام ہے کہ شاید ان کے مصاحبین میں جنوبی ایشیائی امور کے بہترین ماہرین ہوں گے حالانکہ حقیقت اس کے الٹ نظر آتی ہے ۔ تبھی تو لاہور میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے خوفناک دھماکوں کے بعد وہ واحد امریکی صدارتی امید وار تھے جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ وہ اکیلی ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان میں جاری دہشتگردی کا مسئلہ حل کر سکتی ہے ‘‘ ۔
خطے سے آگاہی رکھنے والے مبصرین جانتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں سیکورٹی کے حوالے سے وقوع پذیر ہونے والے اکثر واقعات گویا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں ( بھلے ہی یہ اچھے ہوں یا برے ) ۔ مگر جب ہم صدارتی امید وار ’’ ٹرمپ ‘‘ کے افغانستان کے حوالے سے بیا نات کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کے پاس خطے کا مسائل کا کوئی کرشماتی حل موجود نہیں ۔ بلکہ ظاہری طور پر تو لگتا ہے کہ وہ حقائق سے پوری نا بلد اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور انھیں بنیادی زمینی حقائق سے ہی آگاہی نہیں ۔
مثلاً کئی برسوں تک ٹرمپ کہتے رہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی ایک بڑی غلطی تھی مگر اب ان تمام بیانات سے انحراف کرتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملے کی حمایت کی تھی ۔ ان کے بقول افغانستان میں محدود پیمانے پر امریکی موجودگی ضروری ہے وگرنہ افغانستان برباد ہو جائے گا ۔ ان کا یہ موقف بھی اگرچہ دوسری انتہا ہے مگر کسی حد تک اس میں صداقت بھی ہے مگر امریکہ کی اس فوجی موجودگی کی جو دوسری وجہ وہ بیان کرتے ہیں ، اس سے اتفاق ممکن نہیں ۔ موصوف کا کہنا ہے کہ ’’ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت محدود کرنے کے لئے افغانستان میں امریکی موجودگی ضروری ہے‘‘ ۔ حالانکہ اس بات میں کوئی دلیل یا منطق نہیں مگر ٹرمپ بضد ہیں کہ ایٹمی صلاحیت سے عاری پاکستان کی موجودگی قطعاً ایک مختلف پس منظر کی حامل ہو گی ۔ ٹرمپ کا یہ موقف انتہائی خطر ناک اور ترجیحات میں گمراہ کن سادگی کا حامل ہے کیونکہ پاک افواج انتہائی پیشہ وارانہ صلاحیت کی حامل ہے اور یوں بھی پاکستان افغانستان نہیں ہے ۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست کی مسلح افواج امریکہ کی مدد کے بغیر بھی اپنی ایٹمی صلاحیت اور اثاثوں کی حفاظت کی مکمل اہلیت سے بہرہ مند ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف افغانستان نے سیکورٹی اور ڈیولپمنٹ دونوں حوالے سے خاطر خواہ ترقی نہیں کی ( ماسوائے کابل میں تھوڑی سی اشرافیہ اور غیر ملکی کنسلٹنٹس کے جو خاصے دولت مند ہو چکے ہیں ) ۔ اس صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2002 سے ہی غالباً یہ امریکی ترجیحات میں شامل نہیں تھا کہ عام افغانوں کی ترقی و خوشحالی کی جانب توجہ دی جائے بلکہ امریکیوں کی افغانستان میں موجودگی محض اس وجہ سے رہی تا کہ بوقت ضرورت پاک ایٹمی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے ۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کی خواہش اور کوشش یہ رہی ہے کہ پاک ایٹمی ہتھیاروں پر اپنا کنٹرول حاصل کیا جائے ۔ ایسے میں امریکہ خاطر خواہ ڈھنگ سے افغانستان اور اس کے عوام کے حقیقی مسائل پر کہاں توجہ دے سکتا تھا ۔
اگرچہ ٹرمپ کا موقف ہے کہ پاک افغان خطے پر امریکی توجہ کی ضرورت ہے مگر موصوف کا یہ اعتراض بھی ہے کہ جارج بش نے 2003 میں افغانستان میں اپنے اصل کام کی تکمیل کی بجائے عراق پر حملہ کر دیا ۔ ٹرمپ کا خطے کی بابت طرز عمل اور سوچ ظاہر کرتی ہے کہ افغان عوام موصوف کے نزدیک کسی بھی طور پہلی ترجیح کے حامل نہیں بلکہ ٹرمپ تو پاکستان کو حقیقی دشمن گردانتے ہیں ۔ یہ بات ان کی اٹھائیس اپریل 2016 کو دیئے گئے اس بیان سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ’’ پاکستان کو قابو کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک غیر مستحکم ریاست ہے اور اس ضمن میں بھارت کو استعمال کیا جا نا چاہیے ۔ ‘‘ ’’ اپنے منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ نے عزم ظاہر کی کہ وہ بھارت سے کہیں گے کہ وہ اپنے پڑوسی ( پاکستان ) کے معاملات میں باقاعدہ مداخلت کر کے معاملات کو حل کرے گویا وہ کھلے عام بھارت کو پاکستان پر ایک اور حملے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں اور اسے ایک باقاعدہ نسخہ بتاتے ہیں ‘‘ ۔
یہ بات درست ہے کہ ابھی یہ سب کچھ الفاظ کی حد تک ہے اور صدارتی امید وار ٹرمپ اور منتخب صدر ٹرمپ قطعاً دو مختلف شخصیات ہوں گی جیسا کہ ماضی میں بش کے ساتھ بھی ہوا اور کسی حد تک اوبامہ کے معاملے میں بھی ۔ مگر پھر بھی انتخابی مہم میں ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ کے عہد میں پاک افغان خطے کے مستقبل کی امید افزا تصویر نہیں ابھرتی ۔ اس سارے معاملے کا یہ پہلو زیادہ اہم ہے کہ حالیہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اصل اہمیت اس امر کی ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے مصاحبین کی نوعیت کیسی ہے جیسا کہ 2001 میں بش کے حواریوں نے ’’ ڈک چینی ‘‘ اور ’’ رمز فیلڈ ‘‘ نظر آتے ہیں جو خود کو سخت گیر کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے اور اس کے بعد کے دور میں امن کی فاختائیں اقتدار میں کس حد تک موثر تھیں ۔
بہر کیف کسی ’’ سر پرائز ‘‘ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ٹرمپ کے بقول موجودہ بری صورتحال در اصل ان نام نہاد ماہرین کی وجہ سے ہے جو حکمرانوں کے ارد گرد ہیں تبھی تو مشرق وسطیٰ کی صورتحال اتنی بری ہے کہ ٹرمپ کے خیال میں اگر امریکی صدر اور ان کے مصاحبین سال کے تین سو پینسٹھ دن چھٹی پر چلے جائیں تو مڈل ایسٹ کے معاملات خو د ہی صحیح اور بہتر ہو جائیں گے ۔
ان کے اس موقف میں شاید کچھ وزن بھی ہو مگر یہ بات صرف مشرق وسطیٰ کی بابت ہی امریکی حکمرانوں کی پالیسیوں کے حوالے سے نہیں کہی جا سکتی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں بھی یہی کلیہ لاگو ہونا چاہیے ۔ تبھی شاید خطے میں جاری تیس سالہ مسائل کا دور ختم ہو سکے ۔ بہر کیف ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں ان کے مصاحبین کا انتخاب اور کردار صورتحال کو نئی اور امید افزا شکل دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے ۔
تحریر : ڈیڈیئر شودت :فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمعہ : اصغر علی شاد ) ‘‘۔
مگر ’’ سٹیٹ آف یونین ‘‘ کے اپنے آخری خطاب میں جس انداز میں پاکستان اور افغانستان کو آئندہ کئی عشروں تک غیر مستحکم رہنے کی وعید سنائی ، یہ گویا ان کی جانب سے اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف تھا اور اس سے بخوبی ظاہر ہو گیا کہ وہ آنے والے صدر کے لئے کتنی مشکلات چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ایسے میں اگر ٹرمپ صدر بنتے ہیں تو ان کی پاک افغان پالیسی کیا ہو گی ، اس پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ٹرمپ نے مذکورہ خطے سے بہت دور اپنی انتخابی مہم چلائی ہے اس وجہ سے یہ تاثر عام ہے کہ شاید ان کے مصاحبین میں جنوبی ایشیائی امور کے بہترین ماہرین ہوں گے حالانکہ حقیقت اس کے الٹ نظر آتی ہے ۔ تبھی تو لاہور میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے خوفناک دھماکوں کے بعد وہ واحد امریکی صدارتی امید وار تھے جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ وہ اکیلی ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان میں جاری دہشتگردی کا مسئلہ حل کر سکتی ہے ‘‘ ۔
خطے سے آگاہی رکھنے والے مبصرین جانتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں سیکورٹی کے حوالے سے وقوع پذیر ہونے والے اکثر واقعات گویا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں ( بھلے ہی یہ اچھے ہوں یا برے ) ۔ مگر جب ہم صدارتی امید وار ’’ ٹرمپ ‘‘ کے افغانستان کے حوالے سے بیا نات کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کے پاس خطے کا مسائل کا کوئی کرشماتی حل موجود نہیں ۔ بلکہ ظاہری طور پر تو لگتا ہے کہ وہ حقائق سے پوری نا بلد اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور انھیں بنیادی زمینی حقائق سے ہی آگاہی نہیں ۔
مثلاً کئی برسوں تک ٹرمپ کہتے رہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی ایک بڑی غلطی تھی مگر اب ان تمام بیانات سے انحراف کرتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملے کی حمایت کی تھی ۔ ان کے بقول افغانستان میں محدود پیمانے پر امریکی موجودگی ضروری ہے وگرنہ افغانستان برباد ہو جائے گا ۔ ان کا یہ موقف بھی اگرچہ دوسری انتہا ہے مگر کسی حد تک اس میں صداقت بھی ہے مگر امریکہ کی اس فوجی موجودگی کی جو دوسری وجہ وہ بیان کرتے ہیں ، اس سے اتفاق ممکن نہیں ۔ موصوف کا کہنا ہے کہ ’’ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت محدود کرنے کے لئے افغانستان میں امریکی موجودگی ضروری ہے‘‘ ۔ حالانکہ اس بات میں کوئی دلیل یا منطق نہیں مگر ٹرمپ بضد ہیں کہ ایٹمی صلاحیت سے عاری پاکستان کی موجودگی قطعاً ایک مختلف پس منظر کی حامل ہو گی ۔ ٹرمپ کا یہ موقف انتہائی خطر ناک اور ترجیحات میں گمراہ کن سادگی کا حامل ہے کیونکہ پاک افواج انتہائی پیشہ وارانہ صلاحیت کی حامل ہے اور یوں بھی پاکستان افغانستان نہیں ہے ۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست کی مسلح افواج امریکہ کی مدد کے بغیر بھی اپنی ایٹمی صلاحیت اور اثاثوں کی حفاظت کی مکمل اہلیت سے بہرہ مند ہیں ۔
جبکہ دوسری طرف افغانستان نے سیکورٹی اور ڈیولپمنٹ دونوں حوالے سے خاطر خواہ ترقی نہیں کی ( ماسوائے کابل میں تھوڑی سی اشرافیہ اور غیر ملکی کنسلٹنٹس کے جو خاصے دولت مند ہو چکے ہیں ) ۔ اس صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2002 سے ہی غالباً یہ امریکی ترجیحات میں شامل نہیں تھا کہ عام افغانوں کی ترقی و خوشحالی کی جانب توجہ دی جائے بلکہ امریکیوں کی افغانستان میں موجودگی محض اس وجہ سے رہی تا کہ بوقت ضرورت پاک ایٹمی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے ۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کی خواہش اور کوشش یہ رہی ہے کہ پاک ایٹمی ہتھیاروں پر اپنا کنٹرول حاصل کیا جائے ۔ ایسے میں امریکہ خاطر خواہ ڈھنگ سے افغانستان اور اس کے عوام کے حقیقی مسائل پر کہاں توجہ دے سکتا تھا ۔
اگرچہ ٹرمپ کا موقف ہے کہ پاک افغان خطے پر امریکی توجہ کی ضرورت ہے مگر موصوف کا یہ اعتراض بھی ہے کہ جارج بش نے 2003 میں افغانستان میں اپنے اصل کام کی تکمیل کی بجائے عراق پر حملہ کر دیا ۔ ٹرمپ کا خطے کی بابت طرز عمل اور سوچ ظاہر کرتی ہے کہ افغان عوام موصوف کے نزدیک کسی بھی طور پہلی ترجیح کے حامل نہیں بلکہ ٹرمپ تو پاکستان کو حقیقی دشمن گردانتے ہیں ۔ یہ بات ان کی اٹھائیس اپریل 2016 کو دیئے گئے اس بیان سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ’’ پاکستان کو قابو کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک غیر مستحکم ریاست ہے اور اس ضمن میں بھارت کو استعمال کیا جا نا چاہیے ۔ ‘‘ ’’ اپنے منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ نے عزم ظاہر کی کہ وہ بھارت سے کہیں گے کہ وہ اپنے پڑوسی ( پاکستان ) کے معاملات میں باقاعدہ مداخلت کر کے معاملات کو حل کرے گویا وہ کھلے عام بھارت کو پاکستان پر ایک اور حملے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں اور اسے ایک باقاعدہ نسخہ بتاتے ہیں ‘‘ ۔
یہ بات درست ہے کہ ابھی یہ سب کچھ الفاظ کی حد تک ہے اور صدارتی امید وار ٹرمپ اور منتخب صدر ٹرمپ قطعاً دو مختلف شخصیات ہوں گی جیسا کہ ماضی میں بش کے ساتھ بھی ہوا اور کسی حد تک اوبامہ کے معاملے میں بھی ۔ مگر پھر بھی انتخابی مہم میں ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ کے عہد میں پاک افغان خطے کے مستقبل کی امید افزا تصویر نہیں ابھرتی ۔ اس سارے معاملے کا یہ پہلو زیادہ اہم ہے کہ حالیہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اصل اہمیت اس امر کی ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے مصاحبین کی نوعیت کیسی ہے جیسا کہ 2001 میں بش کے حواریوں نے ’’ ڈک چینی ‘‘ اور ’’ رمز فیلڈ ‘‘ نظر آتے ہیں جو خود کو سخت گیر کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے اور اس کے بعد کے دور میں امن کی فاختائیں اقتدار میں کس حد تک موثر تھیں ۔
بہر کیف کسی ’’ سر پرائز ‘‘ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ٹرمپ کے بقول موجودہ بری صورتحال در اصل ان نام نہاد ماہرین کی وجہ سے ہے جو حکمرانوں کے ارد گرد ہیں تبھی تو مشرق وسطیٰ کی صورتحال اتنی بری ہے کہ ٹرمپ کے خیال میں اگر امریکی صدر اور ان کے مصاحبین سال کے تین سو پینسٹھ دن چھٹی پر چلے جائیں تو مڈل ایسٹ کے معاملات خو د ہی صحیح اور بہتر ہو جائیں گے ۔
ان کے اس موقف میں شاید کچھ وزن بھی ہو مگر یہ بات صرف مشرق وسطیٰ کی بابت ہی امریکی حکمرانوں کی پالیسیوں کے حوالے سے نہیں کہی جا سکتی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں بھی یہی کلیہ لاگو ہونا چاہیے ۔ تبھی شاید خطے میں جاری تیس سالہ مسائل کا دور ختم ہو سکے ۔ بہر کیف ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں ان کے مصاحبین کا انتخاب اور کردار صورتحال کو نئی اور امید افزا شکل دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے ۔
تحریر : ڈیڈیئر شودت :فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمعہ : اصغر علی شاد ) ‘‘۔
سولہ جون کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )