Newspaper Article 10/08/2015
بھارت کی جانب سے تیئس اور 24 اگست کو دہلی میں دونوں ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات کے حوالے سے دعوت نامہ بھیجا گیا ہے جس کا تا حال پاکستان نے جواب نہیں دیا ۔ یہ ملاقات گذشتہ ماہ ’’ اوفا ‘‘ میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان طے پائی تھی ۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ 31 جولائی کو حکومت اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل کا دوسرا دور تعطل کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ جس ڈھنگ سے اچانک ملا عمر کی موت منظرِ عام پر آئی اسے دیکھتے ہوئے اکثر مبصرین متفق ہیں کہ یہ سب کچھ بھارت اور افغانستان میں اس کے آلہ کار گروپ کی ملی بھگت سے ہوا ہے کیونکہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ مودی کی آمد کے بعد سے بھارتی خارجہ پالیسی خصوصاً پاک افغان معاملات پوری طرح سے ہندوستان کے خفیہ اداروں کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں اور انڈین فارن آفس کا رول اس حوالے سے برائے نام رہ گیا ہے ۔ یوں تو مودی حکومت بننے کے بعد وہاں کے وزیر خارجہ کا کردار نہ ہونے کے براب رہ گیا تھا مگر اب بھارتی دفترِ خارجہ کو بھی اس معاملے سے کسی حد تک لا تعلق کر دیا گیا ہے اور وہاں کی فارن پالیسی در حقیقت وہاں کی خفیہ ایجنسیاں مرتب کر رہی ہیں ۔ اس معاملے کے پہلے مرحلے میں 27 مئی 2014 کو انڈین انٹیلی جنس بیورو کے سابق چیف ’’ اجیت ڈووال ‘‘ کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا گیا ۔ یاد رہے کہ بھارت میں اس منصب پر فائز شخصیت چین کے لئے بھارت کا خصوصی ایلچی بھی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد 3 اگست 2014 کو ’’ ڈاکٹر اروند گپتا ‘‘ ( جو ’’ را ‘‘ کے تھنک ٹینک ’’ آئی ڈی ایس اے ‘‘ کے سربراہ تھے ) کو ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا گیا ۔
تین جون 2015 کو سید آصف ابراہیم کو پاکستان اور افغانستا ن کے لئے بھارت کا خصوصی ٰ ایلچی بنایا گیا۔ یاد رہے کہ موصوف 31 دسمبر 2014 تک انڈین انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے طور پر کام کر رہے تھے اور انہیں مشرقِ وسطیٰ افغانستان اور پاکستان میں بھارتی ایجنٹ بنانے کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور وہ 2007 سے 2011 تک لندن میں انڈین ’’ انٹیلی جنس بیورو ‘‘ کے اسٹیشن چیف کے طور پر کام کرتے رہے اور لندن میں ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت اور وہاں مقیم بلوچ اور دیگر قائدین کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم کرنے میں انھیں یدِ طولیٰ حاصل ہے ۔ موصوف کی تین جون کی تقرری کے فوراً بعد جس انداز میں ملا عمر ، جلال الدین حقانی کی اموات کے معاملے سامنے آئے اور افغان صدر اشرف غنی پر اچانک دباؤ بڑھا کر ان کے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا کی گئی اور اسی دوران لندن سے ایم کیو ایم کے اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ان سب باتوں کو اگر محض اتفاق قرار دیا جائے تو اسے سادگی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا ۔
اس ضمن میں یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ بھارت میں نیشنل سیکورٹی کونسل کی ہیئت پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خاصا منظم اور مربوط ادارہ ہے جس کی حیثیت محض رسمی نہیں ۔
19 نومبر 1998 کو ہندوستان میں واجپائی کے دور میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا منصب عمل میں آیا تھا جس پر ’ بالترتیب ’ برجیش مشرا ‘‘ ، ’’ جے این ڈکشت ‘‘ ، ’’ ایم کے نارائنن ‘‘ اور ’’ شیو شکر مینن ‘‘ فائز رہے ۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ’’ اجیت ڈووال ‘‘ جتنا با اثر نہیں تھا ۔ بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کو ’’ را ‘‘ اور ’’ آئی بی ‘‘ باقاعدگی سے رپورٹ پیش کرتی ہیں ۔ اسی سے منسلک سٹریٹجک پالیسی گروپ ہے جس کے ارکان میں کیبنٹ سیکرٹری ، تینوں فورسز چیف ، ریزر و بنک آف انڈیا کا گورنر ، خارجہ ، داخلہ ، دفاع، ڈیفنس پروڈکشن ، خزانہ، اٹامک انرجی ، ریونیو ، ڈائرکٹر ’’ آئی بی ‘‘ ، ’’ را ‘‘ چیف ، سائنٹیفک ایڈوائزر ٹو ڈیفنس منسٹر ، سیکرٹری سپیس ڈیپارٹمنٹ اور چیئر مین جوائنٹ انٹیلی جنس، شامل ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزری بورڈ ہے جس کے ارکان میں حکومت سے باہر داخلی سلامتی ، خارجہ امور اور دیگر شعبوں کے ماہرین ہوتے ہیں جن کا اجلاس ہر مہینے میں کم از کم ایک بار ہوتا ہے ۔
مندرجہ بالا گزارشات کا مقصد محض یہ ہے کہ اگر قومی سلامتی کے مشیروں کی مجوزہ ملاقات ہونا طے پاتی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ وطنِ عزیز کی جانب سے بھی تمام متعلقہ حلقے خاطر خواہ ڈھنگ سے ہوم ورک مکمل کر کے اس میں حصہ لیں تا کہ اوفا سربراہ ملاقات کی مانند اس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو ۔
دس اگست کو ڈیلی پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آبا د پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )