Newspaper Article 13/04/2014
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی مقاصد یہ رہے ہیں کہ اپنے ہمسایہ ملکوں سمیت عالمی برادری کے سبھی ارکان کے ساتھ برابری اور عدم مداخلت کے اصولوں کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات قائم رکھے جائیں۔اپنے اس مقصد میں پاکستان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن بدقسمتی سے بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی بھی قابلِ رشک صورتحال اختیار نہیں کر سکے اور اس کی وجہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ سے تقریباً ہر باخبر شخص آگاہ ہے ۔ایسے میں فطری طور پر یہ سوال سبھی ذہنوں میں موجود ہے کہ ہندوستان کے حالیہ انتخابات پاک بھارت تعلقات پر کس قسم کے اثرات مرتب کرے گا۔ بھارت کی انتخابی مہم اس امر کی مظہر ہے کہ ظاہری طور پر وہاں نریندر مودی کی قیادت میں آئندہ بھارتی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے امکانات خاصے واضح ہیں لہذا اس صورتحال کے ممکنہ منظر نامے کا جائزہ لینا شائد وقت کی اہم ضرورت ہے۔واضح رہے کہ اگر مودی حکومت میں آتے ہیں تو وہ پہلی ایسی شخصیت ہوں گے جن کا تعلق کبھی بھی کانگرس سے نہ رہا ہو یا پھر وہ برہمن نہ ہوں۔مودی کی جیت کی صورت میں درج ذیل منظر نامے وجود میں آ سکتے ہیں۔(1 ) کہ مودی RSS اور BJP کی روائتی اور اعلانیہ حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسیاں اپنائیں ۔بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیاں اختیار کریں ۔چین اورخطے کے دوسرے ملکوں سمیت عالمی سطح پر توسیع پسندانہ عزائم کی روائتی بھارتی روش میں مزید تیزی لائیں۔ (2 ) کانگرس کی موجودہ پالیسیوں کو ہی تسلسل دیں اور کانگرس کی مانند قول و فعل کے تضاد پر مبنی روش اختیار کرتے ہوئے بڑی حد تک جاری لائحہ عمل کو اختیار کریں اور کسی بڑی تبدیلی کی طرف نہ جائیں۔ (3 ) خود پر لگے مسلم دشمنی کے حقیقی ٹھپے کو دور کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کریں تا کہ 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کے دلوں سے اپنی بابت تحفظات ختم کر سکیں یا قابلِ ذکر حد تک اس میں کمی لا سکیں۔علاوہ ازیں پاکستان اور چین کے حوالے سے بھی حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اختیار کریں تا کہ نہ صرف بھارت بلکہ خطے میں بھی اقتصادی ترقی کا عمل جڑیں پکڑ سکے۔ بھارت کی داخلی صورتحال کے طالبِ علم ہونے کی حیثیت سے راقم کی رائے ہے کہ غالب امکان اس امر کا ہے کہ وہ مندرجہ بالا تینوں راستوں میں سے تیسرا لائحہ عمل اپنانے کو ترجیح دے سکتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی سیاست میں 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کی حیثیت اور اہمیت کو نظر انداز کرنا شاید مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے اور اگر کسی نے بھی یہ راہ ختیار کرنے کی کوشش کی تو پھر بھارتی دانشور ’’سبروت رائے‘‘ کے مطابق بھارت موجودہ شکل میں اپنے سو سال یعنی 2047 تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا۔(Will Independent India survive till 2047? The Statesman 1 feb 2008 ) اس ضمن میں یہ امر بھی مدِ نظر رہنا چاہیے کہ مودی کی تمام تر انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اگر بھارتی عوام نے انہیں ساٹھ مہینے حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا تو وہ اقتصادی ترقی کا گجرات ماڈل پورے بھارت میں متعارف کروائیں گے(واضح رہے کہ مودی کے دورِ حکومت میں صوبہ گجرات نے باقی بھارتی صوبوں کی بہ نسبت قابلِ ذکر حد تک بہتر ترقی کی ہے )۔یوں بھی چین سمیت غیر ملکی سرمایہ کاری گجرات میں باقی بھارتی علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوئی ہے۔اور مودی 2005 ،2006 اور 2011 میں اسی سرمایہ کاری کے سلسلے میں چین کا دورہ کر چکے ہیں ۔جہاں پر انھیں خاصی پذیرائی بھی ملی تھی لہذا اگر وہ بھارت کی اقتصادی ترقی کے دعووں میں واقعتاً سنجیدہ ہیں تو ہمسایہ ملکوں کے ساتھ امن کی فضا قائم رکھنا مودی کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری بھی ہو گی۔وگرنہ آئندہ الیکشن جیتنا ان کے لئے ناممکن ہو جائے گا۔ یوں بھی مودی کے عہد میں اگر کوئی ایک بھی مسلم کش فساد رونما ہوا تو اس کا دائرہ پورے بھارت تک پھیلنے کے حقیقی خدشات موجود ہیں۔جسے افورڈ کرنا شاید ہی مودی کے بس میں ہو ۔بی جے پی کی اہم اتحادی جماعت ’’اکالی دل‘‘ (جو سکھوں کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت ہے) جو بھارتی پنجاب میں حکمران ہے اور اکالی دل کے سربراہ اور بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ’’پرکاش سنگھ بادل‘‘ کے تعلقات پاکستانی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ’’محمد شہباز شریف‘‘ کے ساتھ خاصے بہتر ہیں ۔اور پرکاش سنگھ بادل ،پاکستان اور متوقع مودی حکومت کے مابین باہمی پل کا کردار ادا کرنے کی اہلیت اور خواہش رکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا تجزیہ ممکنہ تصویر کا محض ایک پہلو ہے ۔آئندہ نشست میں اس معاملے کے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔انشاء اللہ۔ (مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)