Newspaper Article 14/09/2015
بھارتی صوبے راجستھان میں ’’ بی جے پی ‘‘ کی صوبائی حکومت نے عیدا لضحیٰ کی چھٹی ختم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ پچیس ستمبر کو ہندو لیڈر ’’ دین دیال اپادھیا ‘‘ کا جنم دن ہے اور اس دن تمام سکولوں اور سرکاری اداروں میں خون کے عطیات جمع کیے جائیں گے ۔ اس وجہ سے مسلمان ملازمین اور طلباء سمیت سبھی کو دفاتر اور تعلیمی اداروں میں حاضر ہونا پڑے گا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے علاوہ دیگر اعتدال پسند حلقوں نے بھی اسے کھلی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر ، ہریانہ یہاں تک کہ مقبوضہ کشمیر میں گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی ہے جس کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں 12 ستمبر کو سید علی گیلانی کی اپیل پر مکمل ہڑتال بھی کی گئی ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمران طبقات کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ ان کے ہاں نظام حکومت خالصتاً سیکولر بنیادوں پر چلا یا جا رہا ہے اور اگر کہیں مذہب ، فرقے یا کسی دوسرے تعصب کی بنیاد پر کوئی نا خوشگوار واردات ہوتی بھی ہے تو اس کی نوعیت خالصتاً انفرادی ہوتی ہے نا کہ اجتماعی یا بھارتی معاشرے کی نمائندہ ۔ یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ بین الاقوامی حلقوں کی اکثریت بھی ان بھارتی دعوں سے متفق نظر آتی رہی ہے مگر اب دھیرے دھیرے عالمی برادری میں یہ شعور اجاگر ہو رہا ہے اور وہ اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے( مثلاً سالِ رواں میں دو مرتبہ اوبامہ نے بھارت کو مذہبی رواداری اپنانے کی تلقین کی )کہ بھارت کی مذہبی اقلیتوں کو کسی بھی طور مساوی انسانی حقوق میسر نہیں اور بھارت کے طول و عرض میں ہندو انتہا پسندی کے نظریات زعفرانی دہشتگردی کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں اور زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں بھارتی اقلیتیں اس منفی روش سے محفوظ ہوں ۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ بھارت جیسی کثیر آبادی کے ملک میں زعفرانی انتہا پسندی کا فروغ اور ان گروہوں کے مذموم عزائم سے دہلی سرکار کی چشم پوشی علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ زعفرانی رنگ ہندو دھرم میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اسے عام فہم زبان میں ’’ بھگوا رنگ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اسے ہندو مذہب کی علامت کا درجہ حاصل ہے گویا یہ ہندو ازم کا سمبل ہے ۔ ہندو مذہبی دانشوروں کے نزدیک یہ دھکتی آگ ( یعنی اگنی ) کا رنگ ہے ( یاد رہے کہ اسی وجہ سے بھارت نے اپنے میزائلوں کے نام بھی اگنی ، پرتھوی اور ناگ وغیرہ رکھے ہیں ) ۔ یوں تو 2002 میں گجرات میں مودی حکومت کی سرپرستی میں مسلم نسل کشی کے حوالے سے ابتدا ء میں ان الفاظ کا استعمال شروع ہوا تھا مگر پچیس اگست 2010 کو اس وقت کے بھارت وزیر داخلہ ’’ چدم برم ‘‘ نے تمام صوبوں کے پولیس سربراہوں کے اجلاس سے خطاب کے دوران سرکاری سطح پر پہلی بار ’’ سفران ٹیرر ازم ‘‘ یعنی زعفرانی دہشتگردی کی اصطلاح استعمال کی ۔ واضح رہے کہ 17 ستمبر 2010 کے وکی لیکس انکشافات کے مطابق راہل گاندھی نے 2009 میں بھارت میں متعین امریکی سفیر ’’ ٹموتھی رومر ‘‘ سے کہا تھا کہ ’’ بھارت میں زعفرانی دہشتگرد آنے والے دنوں میں عالمی امن کے لئے لشکرِ طیبہ اور القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں ‘‘۔
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ راہل گاندھی کی یہ پیشین گوئی غلط نہیں تھی کیونکہ مئی 2014 میں بھارت کے طول و عرض میں ووٹ کے ذریعے جس طرح مودی کی قیادت میں ’’ بی جے پی ‘‘ بر سرِ اقتدار آئی ، اس نے واضح کر دیا کہ بھارتی عوام کی اکثریت میں ہندو دہشتگردی اپنی جڑیں کس حد تک مضبوط کر چکی ہے ۔ یاد رہے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ کے لوک سبھا میں کامیاب ہونے والے 282 امیدواروں میں سے ایک بھی مسلمان نہیں اور مودی نے حکومت میں آنے کے بعد پچھلے سولہ ماہ میں جس طرح مسلسل ہندو انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے اور پاکستان کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز ی پر مبنی روش اختیار کر رکھی ہے ، اس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ اگر عالمی برادری نے اب بھی عالمی امن کو درپیش ا س خطرے پر خاطر خواہ ڈھنگ سے توجہ نہ دی تو ہٹلر اور مسولینی کی طرح مودی اور ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے پروردہ یہ عناصر مستقبل میں پوری دنیا کی امن و سلامتی کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں ۔
اس امر پر بھی توجہ دی جانی چاہیے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ کی سر پرستِ اعلیٰ ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے رکن بننے کی بنیادی شرط کے طور پر اس کے منشور کے ابتداء میں ہی واضح کر دیا گیا ہے کہ اس کی رکنیت صرف ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’ آر ایس ایس ‘‘ کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے جو حلف لیا جاتا ہے وہخود اپنے آپ میں اس کے عزائم اور اہداف پوری طرح واضح کر دیتا ہے ۔
’’ سب سے طاقت ور پرمیشور اور اپنے آباؤ اجداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں عہد کرتا ہوں کہ مقدس ہندو دھرم
، ہندو ثقافت اور ہندوانہ رسوم و رواج کا احیاء کر کے بھارت دیش کو عظیم ترین بنانے کے لئے ’’ آر ایس ایس ‘‘
کا رکن بنا ہوں اور میں اپنے اس عہد کا ہمیشہ پالن کروں گا ۔ بھارت ماتا کی جے !‘‘
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ’’ آر ایس ایس ‘‘ نازی ازم اور ہٹلر کے نقشِ قدم پر چلنے کو آئیڈیل خیال کرتی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ نہ صرف وطنِ عزیز کے سبھی حلقے بلکہ عالمی رائے عامہ بھی اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرے گی اور چند روز بعد ہونے والے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اس حوالے سے عملی طور پر بھارت کی گو شمالی کی جائے گی ۔
چودہ ستمبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )