Newspaper Article 11/11/2014
بھارت میں مسلمان حکمرانوں نے تقریباً ایک ہزار برس تک حکومت کی اور اس تاریخی ورثے میں تاج محل (آگرہ) اور دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعے کو جو اہمیت حاصل ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ کہتے ہیں کہ 1656 ء میں شاہ جہاں نے اپنے آخری دورِ حکومت میں جامع مسجد کی امامت کے لئے ازبکستان کے حاکم کو امامت کے لئے کسی ماہر عالم دین بھیجنے کے لئے کہا تو اس نے بخارا کے سید عبدالغفور بخاری کو اس مقصد کے لئے دہلی بھجوایا ۔ تب سے آج تک جامع مسجد کی امامت اسی خاندان کے سپرد ہے اور موجودہ امام سید احمد بخاری 13 ویں امام ہیں ۔
اس خاندان کی روایت رہی ہے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے جانشین کو نائب امام کے طور پر منتخب کر لیا جاتا ہے ۔ اسی حوالے سے جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے اپنے انیس سالہ بیٹے سبحان بخاری کی نائب امام کے طور پر دستار بندی کی تقریب میں وزیر اعظم نواز شریف کو تو مدعو کیا ہے لیکن نریندر مودی کو دعوت نہیں دی ۔ شاہی امام نے اپنے اس عمل پر اعتراض کرنے والوں سے وضاحت کرتے کہا ہے کہ گذشتہ پانچ ماہ میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے عمل سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ صرف بھارتی ہندوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے حقوق اور مسائل کی بابت قطعی سنجیدہ نہیں ۔ انہوں نے آج تک گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی بابت کسی غلطی کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو انصاف دلائیں گے لہذا انہیں جامع مسجد دہلی کی خصوصی تقریب میں کس بنیاد پر مدعو کیا جائے ؟ ۔
یاد رہے کہ بھارت کی بعض تنظیمیں اعتراض کر رہی ہیں کہ شاہی امام نے نواز شریف کو تو مدعو کیا ہے لیکن مودی کو نظر انداز کر کے دانستہ طور پر انہیں نیچہ دکھانے کی کوشش کی ہے جبکہ شاہی امام کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو انھوں نے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر مدعو کیا ہے کیونکہ ان کے میرے والد سے بھی اچھے تعلقات تھے ۔ ویسے بھی کیا ہندوستان کی حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ کبھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی اور باہمی مسائل کے حل کے لئے ایک میز پر نہیں بیٹھیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ تلخی تو دونوں حکومتوں کے درمیان ہے ۔ دونوں جانب کے عوام ایک دوسرے سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ ان کے بقول جب ان کے والد مرحوم نے 14 اکتوبر 2000 کو ہوئی تقریب کے لئے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم باجپائی کو مدعو کیا تھا تو موصوف نے جواب میں نیک خواہشات کا پیغام بھیجا تھا۔ شاہی امام کے بقول باجپائی اور مودی میں بہت فرق ہے ۔مودی کا نظریہ تو بظاہر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہے ۔ ویسے بھی گجرات کے زخم آج بھی ہرے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کہتی ہے کہ عدالت نے مودی کو کلین چٹ دے دی ہے لیکن مسلمانوں نے انھیں کلین چٹ نہیں دی اور نہ ہی معاف کیا ہے ۔
یاد رہے کہ بائیس نومبر کو جامع مسجد دہلی میں نائب امام کی دستار بندی کی تقریب ہو گی جس میں متوقع طور پر امام حرم ’’ شیخ عبدالرحمن السدیث ‘‘ ، ترکی اور ازبکستان کے مفتی اعظم شامل ہوں گے ۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ، سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو ، یوپی کے وزیر اعلیٰ اخلیش یادو کے علاوہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی ، انڈین مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق نائب وزیر خارجہ ’’ ای احمد ‘‘ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے عمائدین کی اکثریت نریندر مودی کی بابت کیا جذبات رکھتی ہے اور یہ صورتحال کسی بھی ملک کی داخلی سلامتی کے حوالے سے لانگ ٹرم بنیادوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
سات نومبر کو نوائے وقت اور پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )