Newspaper Article 23/06/2015
پاک بھارت تعلقات کی جو نوعیت گذشتہ برسوں میں رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ جب مودی برسرِ اقتدار آئے تو بظاہر ان کے پاس اس حوالے سے تین ممکنہ راستے تھے ۔ سرد مہری اور اتار چڑھاؤ پر مبنی تعلقات جیسے چل رہے ہیں ، اسی صورتحال کو برقرار رکھا جائے ۔دوم ، اپنے اور بی جے پی کی روایتی تشخص پر رہتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے مزید جارحانہ روش اختیار کی جائے جس کا اظہار وہ اور ان کے حامی اپنی انتخابی مہم کے دوران کرتے رہے تھے ۔ سوم ، ایک موہوم سی امید یہ بھی تھی کہ شاید وہ اس صورتحال کو ایک بڑے موقع میں تبدیل کر کے نہ صرف اپنے ذاتی امیج کو بہتر کریں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مثبت تبدیلی لا کر پورے خطے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دیں ۔
حلفِ وفاداری کی تقریب میں جب انہوں نے دیگر سارک سربراہوں کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم کا بھی مدعو کیا تو انہوں نے امن پسندوں کی خوش فہمی میں قدرے اضافہ بھی کیا مگر یہ عرصہ انتہائی مختصر تھا ۔ 28 مئی کو اجیت ڈووال کو بطور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کر کے گویا انہوں نے اپنے اس عزم کا اظہار کر دیا کہ وہ پاکستان کی بابت دوسرا آپشن یعنی مزید جارحانہ رویہ اختیار کریں گے ۔
گذشتہ ایک سال میں پاک بھارت تعلقات پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو یہ امر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کہ مودی سرکار پائیدار امن کے قیام میں قطعی مخلص نہیں ۔ کیونکہ پندرہ جون2014 کو ضرب عضب شروع ہونے کے بعد بھارت نے منفی روش اختیار کی۔ اسی ضمن میں 12 جولائی2014 کو ’’ ایل او سی ‘‘ پر تعینات یو این مبصرین کو واپس جانے کی بات کر کے باہمی تعلقات میں مزید مایوسی پیدا کی گئی ۔
چار جولائی کو جموں میں ’’ کٹرہ ریلوے سٹیشن ‘‘ کے افتتاح کے موقع پر اگرچہ انہوں نے کشمیریوں کے دل جیتنے کی بات کی مگر ۔۔۔۔۔
اکتیس جولائی کو ریٹائر ہوتے وقت جنرل بکرم سنگھ اور نئے آرمی چیف ’’ دلبیر سنگھ سوہاگ ‘‘ نے پاکستان کی بابت انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے اور وارننگ دی کہ اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور پھر بارہ اگست کو لداخ اور کارگل میں بجلی گھر کے افتتاح کے موقع پر مودی نے پاکستان کی بابت انتہائی اشتعال انگیز لب و لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ پاکستان روایتی جنگ کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے ، اس لئے پراکسی وار لڑ رہا ہے ۔
چودہ اگست کو شبیر احمد شاہ اور دیگر کشمیری لیڈروں کی پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط سے دہلی میں ملاقات کو بہانہ بنا کر اٹھارہ اگست کو بھارت کی جانب سے 25 اگست کو ہونے والی سیکرٹری خارجہ ملاقات کی تنسیخ کا یک طرفہ بھارتی فیصلہ کر لیا گیا ۔ اسی دوران مہاراشٹر اور ہریانہ کی صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے الیکشن شیڈول کا اعلان سامنے آیا اور اس کے ساتھ ہی ستمبر کے پورے مہینے میں ’’ ایل او سی ‘‘ اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیز گولہ باری روز مرہ کا معمول بن گئی ۔
گیارہ ستمبر کو برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر تنازعہ حل کرنے کی بات ہوئی اور26 ستمبر کو لندن میں گرینڈ کشمیر مارچ ہوا۔ پھر28 ستمبر کو نیو یارک میں مودی ، نیتن یاہو ملاقات اور لا محدود باہمی تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا گیا ۔اسی دوران یو این جنرل اسمبلی میں نواز شریف کی کشمیر کے حوالے سے اپنی تقریر میں اس دیرینہ تنازعہ کے حل کا مطالبہ کیا ۔ علاوہ ازیں سرتاج عزیز نے بانکی مون کو خط لکھا جس میں ’’ ایل او سی ‘‘ پر بھارتی جارحیت پر سخت احتجاج کیا گیا ۔نیویارک میں موجودگی کے باوجود مودی ، نواز شریف کی ملاقات تک نہ ہوئی ۔
26 تا ستائیس نومبر کو کھٹمنڈو سارک سربراہ کانفرنس ، جس کا تھیم تھا ’’ ڈیپر انٹگریشن فار پیس اینڈ پراسپیرٹی ‘‘۔ مگر ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ سارک سمٹ کی ابتدا میں سب سے بڑے دونوں ممالک کے سربراہوں نے ہاتھ تک نہ ملایا البتہ بعد از خرابیِ بسیار مصافحہ ہو گیا ۔
اسی دوران ’’ ایل او سی ‘‘ پر فائرنگ وقفوں وقفوں سے جاری رہی اور اکیس ستمبر کو افغانستان میں نئی قومی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور مودی نے اشرف غنی کو فون کیا اور اجیت ڈووال کو کابل بھیجا اور پہلے دہلی آنے پر اصرار کیا لیکن اشرف غنی اکتوبر میں چین اور پھر نومبر میں پاکستان آئے ۔ اسی دوران اوبامہ نے بھارت دورے کا اعلان کیا اور کو نواز شریف کو فون کیا ۔بعد میں 25 تا ستائیس جنوری اوبامہ بھارت میں آئے اور جاتے ہوئے بھارت کو مذہبی رواداری کی نصیحت کر گئے ۔
10 فروری کو دہلی چناؤ میں ’’ بی جے پی ‘‘ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 13 فروری کو پہلے اوبامہ نے نوازشریف کو فون کیا اور بعد میں مودی نے فون کر کے اپنے 3 مارچ کو اپنے نئے سیکرٹری خارجہ جے شنکر میں پاکستان بھیجنے کی اطلاع دی ۔
مفتی سعید کی ’’ پی ڈی پی ‘‘ سے مقبوضہ کشمیر میں مخلوط حکومت کی بات چیت میں مفتی نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی شرط رکھی ۔ یوں دہلی کی ہار ، مفتی کی شرط اور اوبامہ کے سمجھانے پر مودی نے نواز شریف کو فون کیا ۔
یکم جنوری کو سمندری کشتی کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کے لئے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا مگر انڈین ایکسپریس نے بھارت الزامات کی قلعی کھول دی ۔
پندرہ اپریل ، یکم مئی ، سو لہ مئی اور 29 مئی کو مقبوضہ ریاست میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے ۔ 22 مئی کو بھارتی وزیر دفاع منوہر پریارکر نے اعلانیہ دہشتگردی کا اعتراف کیا ۔ اس کے پہلے بیس اکیس اپریل کو چینی صدر کی پاکستان آمد اور 46 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے جس کے بعد بھارتی رویے میں مزید جارحیت آ گئی ۔
6 اور 7 جون کو مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے انتہائی قابلِ اعتراض بیان دیا جس پر پاکستان کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا اور دونوں ممالک کے مابین تلخی اور کشیدگی اپنے عروج کو پہنچ گئی ۔
ایسے میں عالمی برادری خصوصاً امریکہ کی جانب سے بھارت پر دباؤ بڑھا اس لئے 16 جون کو مودی نے ’’ مرتا کیا نہ کرتا ‘‘ کے مصداق نواز شریف کو فون کیا ۔ اس کے فوراً بعد جان کیری نے بھی پاک وزیر اعظم سے بات کی ۔
9 اور 10 جولائی کو روس میں سنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او ) کا سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس دوران روس اور چین کی خاموش سفارت کاری کے نتیجے میں مودی نواز شریف ملاقات متوقع ہے مگر بھارت کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا غالباً غیر حقیقی ہو گا ۔
بائیس جون کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )