Newspaper Article 07/02/2015
ایک جانب پوری قوم یومِ 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منا رہی ہے ۔ دوسری طرف امریکی صدر اپنا دورہ بھارت مکمل کر کے واپس جا چکے مگر انھوں نے اپنی یاترا کے دوران جو کچھ کیا اور کہا ، اس کی بازگشت طویل عرصے تک اس دورے کا احساس دلاتی رہے گی کیونکہ موصوف نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی باگ ڈور بھلے ہی ریپبلکن پارٹی کے بش کے ہاتھ میں ہو یا پھر انسانی آزادی اور اعلیٰ قدروں کے دعویدار ڈیموکریٹ ’’ بارک حسین اوبامہ ‘‘ کے پاس ۔ درحقیقت اس عالمی قوت کو نہ کسی بین الاقوامی ضابطے کی پرواہ ہے اور نہ ہی اس کے نزدیک انسانی حقوق کی پامالیاں سنجیدہ توجہ کی مستحق ہیں ۔ ان کی یہ ساری باتیں اور خوشنما دعوے محض خانہ پوری کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اس دورے سے قبل دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں میں یہ خوش فہمی خاصی پختہ تھی کہ امریکی صدر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوشش کریں گے کہ نہ صرف علاقائی اور عالمی امن کو تقویت پہنچے گی بلکہ خطے کے مظلوم طبقات کو یہ ڈھارس بندھے گی کہ یہ محروم حلقے اتنے بھی بے یار و مددگار نہیں بلکہ اجتماعی انسانی برادری کی اخلاقی حمایت ان کے لئے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار مبصرین کو یہ توقع بھی تھی کہ امریکی حکمران اپنے عمل سے یہ کوشش کریں گے کہ ترقی پذیر ملکوں میں بالعموم اور پاکستان اور عالمِ اسلام میں بالخصوص پائے جانے والے اس تاثر کی نفی کریں گے کہ عرصہ دراز سے امریکہ ، اسرائیل اور بھارتی لابی کے ہاتھیوں میں ایک کھلونا بنا ہوا ہے ۔
یوں اوبامہ کی یاترا میں ان کے پاس یہ سنہری موقع موجود تھا کہ اپنے چند جملوں سے امریکہ کے ناقدین کو خاموش کر دیں اور امریکہ کی بابت پائی جانے والی بد گمانیوں کی فضا کے خاتمے میں ٹھوس پہل کریں مگر ’’ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا ‘‘ کے مصداق موصوف نے اپنی ذات اور اپنے ملک کی بابت خوش گمانی کے حامل حلقوں کو خاصی حد تک مایوس کیا ۔
امریکی صدر نے بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی حمایت کر کے گویا عملاً دنیا کے سب سے بڑے ادارے یعنی اقوامِ متحدہ کے خاتمے کی جانب ایسی پہل کی جس کے اثرات آنے والے برسوں میں اس عالمی تنظیم کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی سیٹ کا سبز باغ ، ایسا خواب ہے جس کی تعبیر غالباً مستقبل قریب میں کسی طور بھی ممکن نہیں کیونکہ سوا چار سال پہلے یعنی نومبر 2010 کے اوائل میں بھی اوبامہ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران دہلی کے حکمرانوں کو یہی جھانسا دیا تھا ۔
اس بابت ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکی صدر کی اس پیش کش کی حیثیت اصل میں ایک ڈرامہ ہے کیونکہ جاپان ، جرمنی، برازیل اور ساؤتھ افریقہ جیسے اہم ممالک کے اس بابت تحفظات بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں اور یہ بھی سبھی کو علم ہے کہ امریکہ نے یہ سنہرا جال چین کے مقابلے پر بھارت کو کھڑا کرنے کے لئے بچھایا ہے ۔ یوں کسی بھی ذی شعور کو یہ خوش فہمی نہیں ہو سکتی کہ امریکہ اپنے اس انوکھے لاڈلے کو کھیلنے کے لئے چاند مہیا کر سکتا ہے مگر ایسی بات کر کے امریکہ نے اپنی کر کری ضرور کرا لی ہے اور ایسے میں پاکستان کے حکمرانوں اور عوام میں بجا طور پر تشویش پیدا ہوئی ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں کہاں کھڑے ہیں ۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ گذشتہ تیرہ برسوں سے وطنِ عزیز کو فرنٹ لائن اتحادی اور نان نیٹو حلیف کے القابات بڑے تسلسل سے امریکہ اور عالمی برادری کی جانب سے عطا ہوتے رہے ہیں مگر اوباما نے اپنی دہلی یاترا کے دوران جو طرزِ عمل اپنایا غالباً وہ کسی بھی طور دنیا کی سب سے بڑی عالمی قوت کے شایانِ شان نہ تھا ۔ یوں موصوف نے اپنے اس عمل سے اپنی توقیر میں کوئی اضافہ نہیں کیا ۔
رہا سلامتی کونسل کی سیٹ کا معاملہ تو سب جانتے ہیں بھارت وہ ملک ہے جس نے تاحال سلامتی کونسل کی منظور کردہ متفقہ قرار دادوں پر عمل نہیں کیا بلکہ اس کے قطعاً برخلاف مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کی گردان بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ایسے میں بہتر ہوتا کہ جنابِ اوبامہ اپنی ان تقریروں کے دوران اس امر کا باقاعدہ اعلان فرما دیتے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کا سب سے موثر ادارہ سلامتی کونسل آئندہ سے اپنا وجود کھو چکا ہے اور اس کی جگہ ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کی مانند کوئی دوسرا ادارہ بنایا جائے گا جس کی مستقل رکنیت بھارت کو بھی حاصل ہو گی ۔
اگر امریکی حکمران ایسا نہیں کرتے تو انھیں اعلان کرنا ہو گا کہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ماننا اس کے کسی بھی رکن کے لئے اب لازماً نہیں رہا یوں موجودہ اقوامِ متحدہ عملاً اپنی طبعی موت مر چکی ہے ۔ علاوہ ازیں امریکہ نے مقبوضہ ریاست میں جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی پر خاموش رہ کر اور بھارت سے ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کا معاہدہ کر کے جانے دنیا کے امن پسند حلقوں کو کیا پیغام دیا ہے ؟
ایسی صورتحال مین وطنِ عزیز کے تمام مقتدر حلقوں ، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو ایسا قومی ایجنڈہ مرتب کرنا ہو گا جس پر سب کا مکمل اتفاق رائے ہو ۔ کیونکہ اقتصادی صور تحال کی ابتری کو بہتری کی جانب لانے کی خاطر نتیجہ خیز اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
توقع کی جانی چاہیے کہ یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ساری قوم اپنا مثبت کردار نبھائے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی موثر عالمی قوتیں اپنے دوہرے معیار ترک کر کے تعمیری روش اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کرہ ارض کو سبھی انسانوں کے لئے رہنے کی بہتر جگہ میں تبدیل نہ کیا جا سکے ۔
یکم فروری کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )