Newspaper Article 13/11/2013
یوں تو اکثر افراد زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لئےاپنی بساط کے مطابق خاصی جدوجہد کرتے ہیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش کا یہ سفر جاری رہتا ہے۔ مگر اس ضمن میں ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی”باٹم لائن” ضرور ہوتی ہے۔مگر انسانی تاریخ خصوصاً ماضی قریب میں ایسی کئی شخصیات ہر خاص و عام کے مشاہدے میں آتی ہیں،جو کسی قسم کے تکلفات کی قائل نہیں ہوتیں بلکہ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف آگے بڑھنا ہوتا ہے۔بھلے ہی اس کوشش میں انھیں کوئی بھی حد عبور کرنی پڑے۔ جناب حسین حقانی بھی غالباً اسی سوچ کے حامل ہیں۔
ان کےنزدیک شائدغالب کا یہ شعر محض لفاظی ہے
وفاداری بشرط استواری ہی اصل ایمان ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
تبھی تو موصوف نے زمانہ طالبِ علمی میں کراچی یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ یعنی “اسلامی جمیعت طلبہ” کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا،مگر کراچی میں امریکی کونسل خانے کے باقاعدہ خلاف احتجاج میں شامل نہ ہوئے بلکہ بعد میں وہ اس بات کا کریڈٹ لیتے نظر آئے اسلامی جمیعت طلبہ کا سرگرم کارکن ہونے کے باوجود انھوں نے امریکی قونصلیٹ کے خلاف احتجاج میں حصہ نہ لیا۔ کچھ عرصے بعد حسین حقانی نواز شریف کے “میڈیا ایڈوائزر”بن گئے اور اس حیثیت میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اس دور میں انھوں نے مرحومہ نصرت بھٹو اور بے نظیر شہید کے خلاف وہ زبان استعمال کی جسے احاطہ تحریر میں بھی نہیں لایا جا سکتا۔
اس لب و لہجہ کو یقیناً نواز شریف نے بھی پسند نہ کیا لہذا ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ان کو سری لنکا مین ہائی کمیشنز مقرر کر دیا۔ نواز شریف محروم اقتدار ہونے کے قریب پہنچے تو حسین حقانی نے اپنی خدمات مشرف کے لئے وقف کر دیں۔ مگر وہ اس کے بدلے میں مرکزی وزیر اطلاعات بننا چاہتے تھے۔
یہ خواہش پوری نہ ہونے پر موصوف نے امریکی اور بھارتی شہ پر اپنی تمام تر توانائیاں پاک فوج اور”آئی ایس آئی” کے خلاف صرف کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اور یہ سہی لا حاصل تا حال جاری ہیں۔ مگر موصوف چونکہ “ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” کی حکمت عملی پر قائم ہیں لہذا انھوں نے اپنی وفاداریاں”پی پی پی” کی جھولی میں ڈال دیں۔ اس مرحلے پر با شعور حلقے حیران رہ گئے کہ موصوف نے بھٹو خواتین کے حوالے سے گوہر فشانی کی جو تاریخ رقم کی ہے آیا اسے دونوں فریق فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مگر یقیناً موصوف کی پاس کوئی ایسا نسخہ ہے جس کی وجہ سے پی پی پی کی قیادت نے انھیں امریکہ میں پاکستانی سفیر مقرر کر دیا۔ اس وہ اپنی ضرورت سے زیادہ ذہانت کی نذر ہو کر “میمو گیٹ” میں پھنس گئے۔
مگر پھر کسی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہو گئے۔وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں تا حال ملک و قوم کے لئے صرف کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ لوگ حیران ہیں کہ ایسی نایاب شخصیت جو نہ اپنے خاندان،دوستوں،ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہے،ایسے نابغہ روزگار فرد کا اعتبار کریں بھی تو کیسے کیونکہ ساکھ جب راکھ بن جائے تو پھر ایسی شخصیت کے بارے میں یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ
ایسا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو