Newspaper Article 12/01/2015
مقبوضہ جموں کشمیر میں نمائشی انتخابی نتائج کے محض 17 دن بعد یعنی 9 جنوری کو قابض بھارتی حکومت نے گورنر راج نافذ کر دیا ہے ۔ مقبوضہ ریاست کے گورنر ’’ نریندر ناتھ ووہرا‘‘ نے یہ انتہائی قدم بھارتی صدر پرنب مکر جی کے حکم پر اٹھایا ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ 23 دسمبر کے انتخابی نتائج کے مطابق 87 رکنی ریاستی اسمبلی میں سے 28 سیٹیں ’’پی ڈی پی ‘‘کو ، 25 ’’بی جے پی‘‘ کو ،15 نیشنل کانفرنس کو اور 12 کانگرس کو جبکہ 7 سیٹیں دیگر چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امید واروں کو حاصل ہوئیں ۔
24 دسمبر کو کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنا استعفیٰ گورنر این این ووہرا کو پیش کرنے کے بعد پریس کانفرنس میں اس امر کا اظہار کیا تھا کہ کسی بھی قسم کے انتخابات استصوابِ رائے کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکتے کیونکہ اس قسم کے انتخابات میں تو ووٹر روز مرہ کے کے مسائل یعنی پانی ، بجلی ، سڑکوں جیسی ضروریات کے حوالے سے ہی ووٹ ڈالنے آتے ہیں ۔ گورنر نے موصوف کو ایک ہفتے تک قائم مقام وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے کے لئے کہا تو اس دوران ’’بی جے پی‘‘ کی پوری کوشش تھی کہ وہ مقبوضہ ریاست میں اپنی حکومت بنا سکے یا حکومتی اتحاد میں ا س کو اہم حیثیت حاصل ہو اور اس امر کا برملا اظہار بھی کیا گیا کہ ’’بی جے پی‘‘ کی شرکت کے بغیر کسی کو حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور گورنر راج نافذ کر کے گویا انھوں نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیا ۔یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ انڈین آرمی کے سابق چیف جنرل وی کے سنگھ نے 23 ستمبر 2013 کو کھلے عام اعتراف کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آج تک کوئی حکومت بھارتی فوج کی مدد کے بغیر وجود میں نہیں آئی۔ کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی نے موصوف کے اس بیان کے خلاف 30 ستمبر 2013 کو ایک قرار داد بھی منظور کی تھی ۔
یاد رہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر 22 اضلاع پر مشتمل ہے جس میں سے دس وادی کشمیر میں واقع ہیں ان کے نام حسبِ ذیل ہیں ۔اننت ناگ ، کلگام ، پلواما، شوپیاں ، بڈگام ، سری نگر ، گاندر بل ، بانڈی پورہ ، بارہ مولا اور کپواڑہ ۔ جبکہ جموں ریجن بھی دس اضلاع ہیں یعنی کٹھوعہ ، جموں ، سامبا ، اودھم پور ، ریسائی ،راجوڑی ، پونچھ ، ڈوڈا ، رام بن اور کشتواڑ ۔ جبکہ لداخ ریجن میں دو اضلاع کارگل اور لیہہ ہیں ۔ 2011 کی بھارتی مردم شماری کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی آبادی 1 کروڑ 25 لاکھ 48 ہزار 926 ہے ۔
وادیِ کشمیر کی کل آبادی 69لاکھ 7ہزار622ہے جس میں مسلمان 97.16 فیصد، ہندو 1.84 ، سکھ 0.88 اور دیگر 0.11 فیصد ہیں ۔
جموں ریجن کی کل آبادی 53لاکھ 50 ہزار 811 ہے جن میں ہندو 65.23 ،مسلمان 30.69 ، سکھ 3.57 اور دیگر 0.51 فیصد ہیں۔
جبکہ لداخ کی کل آبادی 2 لاکھ 90 ہزار 492 ہے ۔ان میں مسلمان 47.40 ، ہندو 6.23 اور بدھ 45.88 فیصد ہیں۔
یوں مجموعی طور پر مقبوضہ ریاست میں مسلمان کل آبادی کا 66.97 ، ہندو 29.63 ، سکھ 2.03 اور بدھ 1.36 ہیں۔
یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ ریاست کا جھنڈا بھی الگ ہے جس میں سرخ زمین پر ہل ( کھیتوں میں چلایا جانے والا) اور تین سفید پٹیاں ہیں جن سے مراد تینوں ریجن یعنی کشمیر ، جموں اور لداخ ہیں ۔ اس کے علاوہ اس آئین کے تحت کوئی بھارتی شہری مقبوضہ ریاست میں زمین نہیں خرید سکتا اور اگر کوئی کشمیری خاتون کسی بھارتی شہری سے شادی کرے گی تو وہ خود قانونی طور پر اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے محروم ہو جائے گی ۔ علاوہ ازیں بھارت کی تمام صوبائی اسمبلیوں کی میعاد 5 سال جبکہ مقبوضہ جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت 6 سال ہے ۔ یہ تمام حقائق اس امر کے مظہر ہیں کہ خود بھارتی آئین کے مطابق بھی دہلی سرکار کے اس دعوے میں ذرا بھی صداقت نہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے ۔ ’’بی جے پی‘‘ نے اپنے منشور میں تحریری وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ آرٹیکل 370 کو ختم کر دے گی۔
بہرکیف حرفِ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عالمی برادری اور خود بھارت کے انسان دوست حلقوں کو بھی مقبوضہ ریاست پر بھارتی ناجائز تسلط کے خلاف زیادہ موثر کردار ادا کرنا چاہیے اور اس ضمن میں خود وطنِ عزیز کی میڈیا کی بعض شخصیات کو ملکی اداروں کے خلاف الزام تراشیوں کی اپنی روش چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی سرکار کے غیر اخلاقی و غیر آئینی اور انسانیت سے مبّرا روش کے تدارک میں اپنا قومی فریضہ انجام دینا چاہیے ۔
بارہ جنوری کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )