Newspaper Article 20/04/2015
بھارتی حکمرانوں کے لئے اسے فطرت کی جانب سے ایک وارننگ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام تر احتیاط اور شاطرانہ چالوں کے باوجود عالمی اور علاقائی سطح پر کشمیر کا تنازعہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اہمیت اختیا ر کرتا جا رہا ہے ۔ اسی پس منظر میں پندرہ اپریل کو سری نگر میں ہزاروں کشمیریوں نے بھارتی فوج کی وحشت و درندگی کے خلاف حریت رہنماؤں ’’ سید علی گیلانی ‘‘ اور ’’ مسرت عالم ‘‘ کی قیادت میں ریلی نکالی اور اس دوران مسرت عالم اور مظاہرین نہ صرف پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہراتے رہے بلکہ ببانگ دہل پاکستان کے حق میں نعرے بھی بلند کرتے رہے مثلاً ’’ جیوے جیوے پاکستان ‘‘ ، ’’ تیری جان میری جان پاکستان پاکستان ‘‘ ، ’’ ہم کیا چاہیں ، آزادی ‘‘ ، ’’ تیرا میرا کیا ارمان ، پاکستان پاکستان ‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘
بھارتی میڈیا اور حکمران اس پر اتنا برہم ہوئے کہ کشمیریوں کو ان کی حق گوئی کی مزید سزا دینے کے لئے مسرت عالم اور سید علی گیلانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ یاد رہے کہ مسرت عالم جولائی 1971 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مقبوضہ ریاست کی مسلم لیگ سے ہے ۔ 11 جون 2010 کو جدوجہد آزادی کشمیر جب ایک نئے اورفیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی تو مسرت عالم اور شیخ عبدالعزیز نے اس میں بھرپور کردار ادا کیا ۔ شیخ عبدالعزیز تو اگست 2010 میں شہید کر دیئے گئے جبکہ مسرت عالم کو اکتوبر 2010 میں گرفتار کر لیا گیا ۔ تقریباً ساڑھے چار سال بعد انہیں یکم مارچ کو مفتی مودی سرکار بننے کے بعد رہا کیا گیا تھا ۔ مودی سرکار کی کوشش اور خواہش تھی کہ شاید مفتی سعید کو ساتھ ملا کر کشمیریوں کی جدو جہد آزادی پر قابو پایا جا سکتا ہے مگر حالات و واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ یہ محض خوش فہمی تھی ۔
یوں بھی تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو شاطرانہ چالوں یا ریاستی دہشتگردی کے بل بوتے پر غلام بنا کر رکھا جانا کسی طور ممکن نہیں ۔ اسی پس منظر میں راقم نے 29 دسمبر کو نوائے وقت میں شائع اپنے کام بعنوان ’’ مشن 44 ۔۔جموں بمقابلہ کشمیر ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’حالیہ انتخابی تنائج ایسی صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہو
سکتے ہیں جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں مقبوضہ ریاست میں بڑے پیمانے پر
تحریک آزادی کا نیا مرحلہ شروع ہو ۔ کیونکہ جو قوم ایک لاکھ سے زائد فرزندوں
کی قربانی دے چکی ہو ، وہاں محض نمائشی انتخابات کرا کے اور چہروں کی تبدیلی
سے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا اور چاہے وزیر اعلیٰ ’’ جتندر سنگھ ‘‘بنیں یا پھر
’’ عمر عبداللہ ‘‘ اور ’’ محبوبہ مفتی ‘‘ ۔ ملت فروشی کی اپنی خاندانی روایت کو مزید آگے
بڑھائیں ، یہ بات طے ہے کہ کشمیری عوام بھارتی تسلط اور ان کے مہروں کو
قبول کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں ہوں گے ۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابل
ِ ذکر ہے کہ انڈین آرمی کے سابق سربراہ اور موجودہ ’’ نائب وزیر خارجہ
’’ جنرل وی کے سنگھ ‘‘ 24 ستمبر 2013 کو کھلے عام اعتراف کر چکے
ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں 1947 سے لے کر آج تلک جتنی بھی حکومتیں
بنیں ہیں وہ بھارتی فوج کی آشیر باد سے بنیں اور قائم رہیں اور ان
کی فنڈنگ بھی انڈین آرمی کرتی رہی ہے ( انڈین ایکسپریس ) ۔
ایسے میں یہ امر تقریباً طے ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبوضہ
ریاست میں بھارت کے خلاف تحریک آزادی نئے جوش و
ولولے کے ساتھ فعال ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
غیر جانبدار تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ تحریکِ آزادی کشمیر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ بھارت پر قابض حکام کے لیے اپنا ناجائز تسلط قائم رکھنے میں مشکلات حائل ہوتی جائیں گی جس کا مظہر یہ ہے کہ چند ماہ پہلے برطانوی پارلیمنٹ میں پہلی بار کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف قرار داد سامنے آئی ۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں آزادی کے حق میں ’’ کشمیر گرینڈ مارچ ‘‘ نکالا گیا اور بہت سے انسان دوست حلقوں کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ جس طرح سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حوالے سے ریفرنڈم منعقد ہوا ۔ اسی طرح کشمیر یوں سے بھی ان کی رائے جاننے کے لئے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرنڈم کروایا جائے ۔ خود بھارت کے کئی اعتدال پسند طبقے بھی ماضی قریب میں اسی موقف کا اظہار کر چکے ہیں ۔ جون 2014 میں بھارتی لوک سبھا کی خاتون رکن اور تلنگانہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی صاحبزادی ’’ کے کویتا ‘‘ نے اعتراف کیا تھا کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ طاقت کے زور پر کیا گیا ہے اس لئے بھارتی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے اور کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم کی جائے ۔ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے رہنما اور بھارت کے ممتاز قانون دان ’’ پرشانت بھوشن ‘‘ بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ی اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انھیں الگ ہونے کا حق فراہم کیا جائے ۔
دوسری جانب بھارت سرکار کی تشکیل کردہ کشمیر ثالثی کمیٹی کے سابق سربراہ ’’ دلیپ پنڈگونکر ‘‘ نے بھی کہا کہ پاکستان کو باہر رکھ کے تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ‘‘ ۔ اس بیان پر ’’ بی جے پی ‘‘ اور انتہا پسند ہندو طبقات کی تنقید جاری تھی کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن اور سابق مرکزی وزیر قانون ’’ رام جیٹھ ملانی ‘‘ نے بھی دلیپ پنڈگونکر کے خیالات کو درست قرار دیتے ہوئے گویا ’’ بی جے پی ‘‘ اور کانگرس دونوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ۔ بھارتی سرکار اس صورت حال میں خود کو خاصا ہراساں محسوس کر رہی ہے ۔ تبھی تو اس کے ترجمان اور مقبوضہ ریاست کے نائب وزیراعلیٰ ’’ نرمل سنگھ ‘‘ نے کہا ہے کہ مسرت عالم کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں البتہ اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اس کے خلاف قانون خود راستہ بنائے گا ۔ ظاہر ہے کہ یہ لا یعنی اور بے سر و پا موقف محض خانہ پری کے لئے ہے ۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ 17 اپریل کو میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں ہزاروں کشمیریوں نے بھارتی ریاستی دہشتگردی کے خلاف جلوس نکالا جس پر بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ اور لاٹھی چارج سے 14 افراد شدید زخمی ہوئے ۔ یاد رہے کہ مقبوضہ ریاست میں احتجاج کی موجودہ لہر انڈین آرمی کی جانب سے خالد حفیظ نامی نوجوان کی شہادت کے خلاف شروع ہوئی جسے دہشتگرد قرار دے کر سفاکانہ ڈھنگ سے شہید کر دیا گیا حالانکہ تجہیز و تکفین سے پہلے اس کے جسم پر گولی کا ایک نشان بھی نہ پایا گیا جبکہ اس کے تمام دانت اکھاڑے ہوئے تھے ، ناک اور کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور ناخن بھی نکال لیئے گئے تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دوران حراست اس پر کس حد تک تشدد کیا گیا ہو گا ، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
خود ہندوستان کے بعض انسان دوست حلقوں نے بھارت سرکار کی اس غیر انسانی روش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
اسی میں توقع رکھی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی دہلی سرکار کی اس روش کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں گے ۔ اس کے ساتھ خود دہلی کے حکمرانوں کو بھی احساس کرنا ہو گا کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ محض طاقت کے بل بوتے پر کسی قوم کو ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
20 اپریل کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )