Newspaper Article 07/01/2017
عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اور دہلی کے موجودہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے ہندوستان کی سیاسی بساط پر اپنے لیے بہت ہی کم وقت میں ایک کامیاب اورمخصوص کردار تیار کرلیاہے۔2015 میں دہلی کے 2 کروڑعوام کو لبھا کر 70 میں سے67سیٹ جیت لینا،ان کی بڑی کامیابی تھی۔ حالانکہ جس طرح وہ اور ان کے ا رکان اسمبلی لگاتارتنازعوں میں پھنس رہے ہیں،وہ دہلی کی ترقی میں مکمل طور پر رکاوٹ ڈال رہاہے اورجگہ جگہ مبینہ طور پر عام آدمی پارٹی کی کرکری ہورہی ہے۔
کجریوال نے گزشتہ مہینوں دہلی کی ذمہ داری منیش سسودیاکو سونپ دی ہے اوراپنا زیادہ تر وقت پنجاب کے اسمبلی انتخاب کی تیاری میں لگا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی پنجاب اور گوا میں اگلے کچھ مہینوں میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کے لیے سبھی سیٹوں پرامیدوارکھڑی کررہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کی جیت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتاہے۔بی جے پی اور کانگریس پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت بھی عام آدمی پارٹی کے ان ریاستوں میں بڑھتے ہوئے قدم کو تکلیف دہ محسوس رہی ہیں۔ آخرکجریوال کاانتخابی فارمولا کیا ہے؟ عوام کی ایسی کون سی نبض انھیں معلو م ہوگئی ہے کہ جس کوپکڑکر وہ اپنی پارٹی کو روز بروز آگے بڑھاتے جا رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سب سے پہلے، کجریوال کی حکمت عملی ان ریاستوں میں انتخاب لڑنے کی ہے جن میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان آپسی لڑائی رہتی ہے۔ یہ کجریوال کاپہلا انتخابی گُر ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی کی فروری 2015 میں مثالی جیت کی سب سے اہم وجہ اسی سچائی کو مانا جاسکتا ہے۔
ایسی ریاستوں میں عوام کے پاس کوئی تیسرا مضبوط متبادل نہیں ہوتاہے۔ایسی ریاست میں باری باری سے یا تو بی جے پی کی سرکار بنتی رہی ہے یا کانگریس کی سرکار۔ ایساہر5۔10 سال میں ہوتا رہتا ہے۔ راجستھان، پنجاب، اتراکھنڈ وغیرہ ریاستیں اس کی مثال ہیں۔ سال 2012 میں پنجاب کے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں اکالی دل، جوکہ بی جے پی کی ایک طویل عرصہ سے اتحادی پارٹی رہی ہے، کوریاست میں اکثریت ملی۔ کانگریس کو صرف 46 سیٹیں ہی ملیں۔ جہاں اکالی دل۔ بی جے پی کا ووٹ تناسب تقریباً 42 فیصد تھا، وہیں کانگریس کو 40 فیصد ووٹ ملے تھے۔
لیکن 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں عام آدمی پارٹی نے بڑھ چڑھ کراپنے امیدوار اتارے۔ بھارت کے تمام حصوں میں تو عام آدمی پارٹی کے زیادہ تر امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی لیکن بھارتی پنجاب میں غیر متوقع طور پرکجریوال کو کامیابی ملی۔ ’’ آپ ‘‘ کو پنجاب میں پارلیمانی انتخاب میں24.4 فیصد ووٹ ملے۔ جہاں کانگریس کاووٹ فیصد 12.5 فیصد گرا،اکالی دل کاتقریباً 7.5 فیصد ووٹ گرا اور بی جے پی کا 1.5 فیصد ووٹ گرا۔ غور طلب ہے کہ آپ کو جوووٹ پنجاب میں ملے، وہ ان ہی پارٹیوں کے ووٹ بینک میں نقب لگاکر حاصل ہوئے۔ لوک سبھا میں13 میں سے 4 سیٹیں جیتنے کے بعد کجریوال کا حوصلہ کافی بڑھا اور اب2017 میں عام آدمی پارٹی انڈین پنجاب کی سبھی 117 اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کررہی ہے۔
گجرات،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ میںیوں تو کانگریس پارٹی سرگرم ہے لیکن گزشتہ تین لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو لگاتار بڑھت ملی ہے۔ پنجاب اور گوا کے بعدکجریوال کی منشا ان ہی ریاستوں میں پیر پسارنے کی ہے۔ان ریاستوں کے عوام کو لبھاناکجریوال کے لیے آسان ہے کیونکہ عوام ایک نئی تبدیلی کے لیے پُرامید خواب دیکھنا چاہتے ہیں۔پنجاب میں کسانوں کے پرانے قرض معاف کرانے کا وعدہ، شراب اور ڈرگ مافیاسے آزادی کا وعدہ اور ٹیکس دہندگان کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا وعدہ،اسی لبھانے والی حکمت عملی کے تحت عام آدمی پارٹی پنجاب میں کررہی ہے۔
کجریوال کا دوسرا گُر مودی جی کی پالیسیوں کی ہر ممکن مخالفت کرناہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے مطابق میڈیا میں بنے رہنے کے لیے کجریوال کے لیے یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔
کجریوال کا تیسرا انتخابی گُر ان کااپناایک الگ سماجی،اقتصادی طبقہ بنانا ہے۔ اقتصادی طور پر کمزورطبقہ کی نبض پر ان کی اچھی پکڑ ہے۔ ریہڑی پٹری والے چھوٹے کاروباری،یومیہ مزدوری کرنے والے مزدور اور کاریگر طبقہ کے لوگ پورے زور شور سے ان کی تقریر کا لطف اٹھاتے ہیں اوران کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2015 میں دہلی اسمبلی انتخاب میں77 فیصد مسلم ووٹروں اور57 فیصد سکھ ووٹروں نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔
ان کا چوتھا، پانچواں اور چھٹا گُر چیزوں کو مفت بانٹنا،بڑے وعدے کرنااورموجودہ سرکارکے لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کا الزام لگاناہے۔ جس طرح دہلی میں انھوں نے مفت پانی او رمفت انٹرنیٹ دینے کا وعدہ کیا اسی طرح پنجاب میں بھی کسانوں کے پرانے قرض کومعاف کرنے کا وعدہ زور شور سے کیا جارہاہے۔
حالانکہ کسانوں کے لیے سر چھوٹو رام ایکٹ 1934 کو پھر سے نافذ کرنے کاپلان کجریوال کی ایک اچھی پہل ہے جس کے تحت سود کی رقم کبھی بھی اصل قرض سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی پنجاب کے 85 فیصد کسان قرض میں ڈوبے پڑے ہیں اور ریاست میں کسانوں پر تقریباً 70,000کروڑ کا قرض ہے۔ کل قرض کی رقم میں سے 13000 کروڑ کی رقم نجی سودخوروں کی ہے جو سود وقت پر نہیں ملنے پر شہ زوری کے ذریعہ کسانوں کی زمین آسانی سے ہڑپ سکتے ہیں۔
بھارتی پنجاب میں ہرچھوٹے کسان پرتقریباً پونے تین لاکھ روپے کاقرض ہے اور متوسط طبقے کے کسانوں پر ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ جس طرح دہلی میں کجریوال نے شیلا دیکشت کے اوپرالزام لگائے یاپھر ارون جیٹلی پرڈی ڈی سی اے میں ہورہی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزام لگائے، اسی طرح اب پنجاب میں بھی اکالی دل نیتا مجیٹھیا اور نائب وزیر اعلیٰ سکھ بیرسنگھ بادل پربھی الزام لگائے جارہے ہیں اور انھیں جیل بھیجنے کا اعلان ہر تقریرمیں کیا جارہا ہے۔ یہی کجریوال کا فارمولہ ہے جس کا استعمال وہ انڈین پنجاب اسمبلی انتخاب میں کررہے ہیں۔
کجریوال کاساتواں گُر ان کی تنظیمی صلاحیت ہے۔2014 میں عام آدمی پارٹی نے پورے ملک میں 432 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ امیدواروں کی یہ تعداد بی جے پی اور کانگریس کے امیدواروں سے بھی زیادہ تھی۔ لوک سبھا انتخابات میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد غالباً کجریوال کی سمجھ میں آگیا تھاکہ صرف میڈیا کے زور پر چناؤ نہیں جیتا جا سکتا ۔ انتخاب جیتنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی تنظیم کا ہونا ضروری ہے۔
اس لئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ عام آدمی پارٹی انڈین پنجاب میں حکومت سازی کے قریب پہنچ سکتی ہے ۔
کجریوال نے گزشتہ مہینوں دہلی کی ذمہ داری منیش سسودیاکو سونپ دی ہے اوراپنا زیادہ تر وقت پنجاب کے اسمبلی انتخاب کی تیاری میں لگا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی پنجاب اور گوا میں اگلے کچھ مہینوں میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کے لیے سبھی سیٹوں پرامیدوارکھڑی کررہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کی جیت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتاہے۔بی جے پی اور کانگریس پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت بھی عام آدمی پارٹی کے ان ریاستوں میں بڑھتے ہوئے قدم کو تکلیف دہ محسوس رہی ہیں۔ آخرکجریوال کاانتخابی فارمولا کیا ہے؟ عوام کی ایسی کون سی نبض انھیں معلو م ہوگئی ہے کہ جس کوپکڑکر وہ اپنی پارٹی کو روز بروز آگے بڑھاتے جا رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سب سے پہلے، کجریوال کی حکمت عملی ان ریاستوں میں انتخاب لڑنے کی ہے جن میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان آپسی لڑائی رہتی ہے۔ یہ کجریوال کاپہلا انتخابی گُر ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی کی فروری 2015 میں مثالی جیت کی سب سے اہم وجہ اسی سچائی کو مانا جاسکتا ہے۔
ایسی ریاستوں میں عوام کے پاس کوئی تیسرا مضبوط متبادل نہیں ہوتاہے۔ایسی ریاست میں باری باری سے یا تو بی جے پی کی سرکار بنتی رہی ہے یا کانگریس کی سرکار۔ ایساہر5۔10 سال میں ہوتا رہتا ہے۔ راجستھان، پنجاب، اتراکھنڈ وغیرہ ریاستیں اس کی مثال ہیں۔ سال 2012 میں پنجاب کے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں اکالی دل، جوکہ بی جے پی کی ایک طویل عرصہ سے اتحادی پارٹی رہی ہے، کوریاست میں اکثریت ملی۔ کانگریس کو صرف 46 سیٹیں ہی ملیں۔ جہاں اکالی دل۔ بی جے پی کا ووٹ تناسب تقریباً 42 فیصد تھا، وہیں کانگریس کو 40 فیصد ووٹ ملے تھے۔
لیکن 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں عام آدمی پارٹی نے بڑھ چڑھ کراپنے امیدوار اتارے۔ بھارت کے تمام حصوں میں تو عام آدمی پارٹی کے زیادہ تر امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی لیکن بھارتی پنجاب میں غیر متوقع طور پرکجریوال کو کامیابی ملی۔ ’’ آپ ‘‘ کو پنجاب میں پارلیمانی انتخاب میں24.4 فیصد ووٹ ملے۔ جہاں کانگریس کاووٹ فیصد 12.5 فیصد گرا،اکالی دل کاتقریباً 7.5 فیصد ووٹ گرا اور بی جے پی کا 1.5 فیصد ووٹ گرا۔ غور طلب ہے کہ آپ کو جوووٹ پنجاب میں ملے، وہ ان ہی پارٹیوں کے ووٹ بینک میں نقب لگاکر حاصل ہوئے۔ لوک سبھا میں13 میں سے 4 سیٹیں جیتنے کے بعد کجریوال کا حوصلہ کافی بڑھا اور اب2017 میں عام آدمی پارٹی انڈین پنجاب کی سبھی 117 اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کررہی ہے۔
گجرات،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ میںیوں تو کانگریس پارٹی سرگرم ہے لیکن گزشتہ تین لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو لگاتار بڑھت ملی ہے۔ پنجاب اور گوا کے بعدکجریوال کی منشا ان ہی ریاستوں میں پیر پسارنے کی ہے۔ان ریاستوں کے عوام کو لبھاناکجریوال کے لیے آسان ہے کیونکہ عوام ایک نئی تبدیلی کے لیے پُرامید خواب دیکھنا چاہتے ہیں۔پنجاب میں کسانوں کے پرانے قرض معاف کرانے کا وعدہ، شراب اور ڈرگ مافیاسے آزادی کا وعدہ اور ٹیکس دہندگان کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا وعدہ،اسی لبھانے والی حکمت عملی کے تحت عام آدمی پارٹی پنجاب میں کررہی ہے۔
کجریوال کا دوسرا گُر مودی جی کی پالیسیوں کی ہر ممکن مخالفت کرناہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے مطابق میڈیا میں بنے رہنے کے لیے کجریوال کے لیے یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔
کجریوال کا تیسرا انتخابی گُر ان کااپناایک الگ سماجی،اقتصادی طبقہ بنانا ہے۔ اقتصادی طور پر کمزورطبقہ کی نبض پر ان کی اچھی پکڑ ہے۔ ریہڑی پٹری والے چھوٹے کاروباری،یومیہ مزدوری کرنے والے مزدور اور کاریگر طبقہ کے لوگ پورے زور شور سے ان کی تقریر کا لطف اٹھاتے ہیں اوران کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2015 میں دہلی اسمبلی انتخاب میں77 فیصد مسلم ووٹروں اور57 فیصد سکھ ووٹروں نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔
ان کا چوتھا، پانچواں اور چھٹا گُر چیزوں کو مفت بانٹنا،بڑے وعدے کرنااورموجودہ سرکارکے لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کا الزام لگاناہے۔ جس طرح دہلی میں انھوں نے مفت پانی او رمفت انٹرنیٹ دینے کا وعدہ کیا اسی طرح پنجاب میں بھی کسانوں کے پرانے قرض کومعاف کرنے کا وعدہ زور شور سے کیا جارہاہے۔
حالانکہ کسانوں کے لیے سر چھوٹو رام ایکٹ 1934 کو پھر سے نافذ کرنے کاپلان کجریوال کی ایک اچھی پہل ہے جس کے تحت سود کی رقم کبھی بھی اصل قرض سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی پنجاب کے 85 فیصد کسان قرض میں ڈوبے پڑے ہیں اور ریاست میں کسانوں پر تقریباً 70,000کروڑ کا قرض ہے۔ کل قرض کی رقم میں سے 13000 کروڑ کی رقم نجی سودخوروں کی ہے جو سود وقت پر نہیں ملنے پر شہ زوری کے ذریعہ کسانوں کی زمین آسانی سے ہڑپ سکتے ہیں۔
بھارتی پنجاب میں ہرچھوٹے کسان پرتقریباً پونے تین لاکھ روپے کاقرض ہے اور متوسط طبقے کے کسانوں پر ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ جس طرح دہلی میں کجریوال نے شیلا دیکشت کے اوپرالزام لگائے یاپھر ارون جیٹلی پرڈی ڈی سی اے میں ہورہی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزام لگائے، اسی طرح اب پنجاب میں بھی اکالی دل نیتا مجیٹھیا اور نائب وزیر اعلیٰ سکھ بیرسنگھ بادل پربھی الزام لگائے جارہے ہیں اور انھیں جیل بھیجنے کا اعلان ہر تقریرمیں کیا جارہا ہے۔ یہی کجریوال کا فارمولہ ہے جس کا استعمال وہ انڈین پنجاب اسمبلی انتخاب میں کررہے ہیں۔
کجریوال کاساتواں گُر ان کی تنظیمی صلاحیت ہے۔2014 میں عام آدمی پارٹی نے پورے ملک میں 432 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ امیدواروں کی یہ تعداد بی جے پی اور کانگریس کے امیدواروں سے بھی زیادہ تھی۔ لوک سبھا انتخابات میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد غالباً کجریوال کی سمجھ میں آگیا تھاکہ صرف میڈیا کے زور پر چناؤ نہیں جیتا جا سکتا ۔ انتخاب جیتنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی تنظیم کا ہونا ضروری ہے۔
اس لئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ عام آدمی پارٹی انڈین پنجاب میں حکومت سازی کے قریب پہنچ سکتی ہے ۔
پانچ جنوری کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )