Newspaper Article 16/09/2018
سبھی جانتے ہیں کہ بھارت بھر میں بدترین ذات پات کا نظام رائج ہے۔ اس بابت سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ اگرچہ جنوبی افریقہ کی سابق سفید فام اقلیت کے دور میں بہت سے مظالم ڈھائے گئے مگر قابل ذکر امر یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں سیاہ فام اکثریت کا نشانہ سفید فام حکمران اقلیت تھی، مگر ہندوستان کا المیہ یہ ہے کہ اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم نسلوں کو محض ذات پات کی بنیاد پر جس قدر استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کا تصور بھی کوئی دوسرا انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا۔مبصرین کے مطابق اس المیے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ افریقہ وغیرہ میں جب نسلی تعصب کی بنیاد پر مظالم ہوئے تو دیگر افریقی ممالک میں اس کے خلاف موثر آواز اٹھائی گئی۔ مگر چونکہ دنیا بھر میں بھارت کے علاوہ دلتوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے لہذا اس جانب عالمی سطح پر کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جا سکتی اور اس کا فائدہ اونچی ذات کے ہندو ہر طرح سے اٹھا رہے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خود ہندو دھرم کے باسی دلت ہی غیر انسانی مظالم سہہ رہے ہیں کیونکہ دلتوں کے خلاف اس امتیازی سلوک کا حکم خود ہندو دھرم دیتا ہے۔ اسی تناظر میں غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں سیٹوں کی تقسیم کچھ یوں ہے۔ لوک سبھا کی کل سیٹیں 543 ہیں جن میں سے شیڈول کاسٹ کے لئے 84اور شیڈول ٹرائبس کے لئے 47 مختص ہیں یعنی کل ملا کر بھارتی آئین کے مطابق ایوان زیریں میں دلتوں کے لئے 131 سیٹیں مختص ہیں۔
یاد رہے 26 جنوری 1950 کو بھارتی آئین کے نفاذ کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ ریزرو سیٹوں کا یہ نظام 10 سال بعد 1960 میں ختم ہو جائے گامگر پھر نچلی ذات کے دباؤ کے نتیجے میں بھارتی آئین میں 8 ویں ترمیم کے ذریعے اس کی مدت 1970 تک بڑھا دی گئی۔ بعد میں اس کی مدت 23 ویں ترمیم کے ذریعے 1980 ، 45 ویں کے ذریعے 1990 ، 62 ویں کے ذریعے 2000اور 79 ویں ترمیم کے ذریعے 2010 تک بڑھا دی گئی۔ 2010 میں 95 ویں آئینی ترمیم کر کے اس ریزرویشن کی مدت جنوری 2020 تک بڑھائی گئی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ’’آر ایس ایس‘‘ کا پرزور مطالبہ ہے کہ ریزرویشن کا سسٹم ختم کیا جائے اور آئندہ اس میں توثیق نہ کی جائے کیونکہ ان کے بقول اس سے میرٹ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب دلت اور شیڈول کاسٹ کا یہ غالباً جائز موقف ہے کہ اگر یہ ریزرویشن ختم کی گئیں تو یہ اچھوتوں کے لئے موت سے بھی بدتر صورتحال ہو گی اور اسے کسی صورت ختم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ریزرویشن کو آئینی طور پر ختم کرنے کی جانب ذرا سی بھی حقیقی پیش رفت ہوئی تو بھارت ’’دنوں‘‘ میں بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ دلت اپنے حقوق کے ضمن میں بے انتہا حساس ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر میرٹ پر بات آئی تو متعصب برہمنوں کی وجہ سے نہ انھیں نوکری ملے گی نہ کچھ اور ۔ لہذا آنے والے دنوں میں جب یہ بحران کھڑا ہو گا تو درحقیقت اسی بنیاد پر کھڑا ہو گا۔’’آر ایس ایس‘‘ کے سابق چیف سودرشن، موجودہ چیف موہن بھاگوت اور دیگر طبقات وقتاً فوقتاً اس ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ مگر اچھوتوں کی طرف سے آنے والے شدید ردعمل کو دیکھ کر مصلحتاً وقتی طور پر خاموش ہو جاتے ہیں اور درحقیقت آنے والے دنوں میں یہی بھارت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ جس حساب سے بھارت میں اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف متشدد واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے،اس سے خود بھارت کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے ’’آر ایس ایس‘‘ کے چیف موہن بھاگوت اور وشو ہندو پریشد کے سربراہ پروین تگوڑیا نے 2015 میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی جینتی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں کو تاکید کی تھی کہ 2021 یعنی اگلی مردم شماری تک بھارت سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا مکمل خاتمہ کر دیں تا کہ 800 سال بعد بھارت مکمل طور سے رام راجیے اور اکھنڈ بھارت میں تبدیل ہو سکے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے تمام حلقوں نے اپنی سوچی سمجھی رائے ظاہر کی ہے کہ یوں تو ’’آر ایس ایس‘‘ ، بی جے پی اور سنگھ پریوار کے دیگر گروہوں کا خیال ہے کہ 2025 کو ’’آر ایس ایس‘‘ کے قیام کے 100 سو سال پورے ہونے کے حوالے سے ’’آر ایس ایس‘‘ کے بانی ڈاکٹر ہیگواڑ کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ موصوف کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے مگر عالمی دباؤ کی وجہ سے شاید 2020 میں بھی ریزرویشن سیٹوں کی مدت کو مزید دس سال یعنی 2030 کے لئے توسیع دے دی جائے مگر جنونی ہندو گروہ اس صورتحال کو غیر معینہ عرصہ تک جاری رکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے اغلب امکان ہے کہ 2031 میں ریزرویشن کے موجودہ نظام کو پوری طرح سمیٹ دینے کی جانب عملی پیش رفت ہو گی اور یقیناً یہی وہ لمحہ ہو گا جب بھارت اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہو گا، یوں اگلے مرحلے میں بھارت میں عمل اور ردعمل کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گا کہ اس سے اگلے چند سال میں بھارت اپنی موجودہ شکل میں موجود نہیں رہ پائے گا۔ بہر کیف اسے اتفاق یا سوئے اتفاق جو بھی کہا جائے گا کہ 90 سال ہی انگریز حکومت باقاعدہ طور پر برصغیر پر قابض رہی یعنی 1857 سے 1947 تک، اور اب 1947 سے 2037 تک بھی 90 سال کا عرصہ بنتا ہے اور اس میں بھارت اپنی موجودہ شکل غالباً تبدیل کر چکا ہو گا۔
یاد رہے 26 جنوری 1950 کو بھارتی آئین کے نفاذ کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ ریزرو سیٹوں کا یہ نظام 10 سال بعد 1960 میں ختم ہو جائے گامگر پھر نچلی ذات کے دباؤ کے نتیجے میں بھارتی آئین میں 8 ویں ترمیم کے ذریعے اس کی مدت 1970 تک بڑھا دی گئی۔ بعد میں اس کی مدت 23 ویں ترمیم کے ذریعے 1980 ، 45 ویں کے ذریعے 1990 ، 62 ویں کے ذریعے 2000اور 79 ویں ترمیم کے ذریعے 2010 تک بڑھا دی گئی۔ 2010 میں 95 ویں آئینی ترمیم کر کے اس ریزرویشن کی مدت جنوری 2020 تک بڑھائی گئی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ’’آر ایس ایس‘‘ کا پرزور مطالبہ ہے کہ ریزرویشن کا سسٹم ختم کیا جائے اور آئندہ اس میں توثیق نہ کی جائے کیونکہ ان کے بقول اس سے میرٹ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب دلت اور شیڈول کاسٹ کا یہ غالباً جائز موقف ہے کہ اگر یہ ریزرویشن ختم کی گئیں تو یہ اچھوتوں کے لئے موت سے بھی بدتر صورتحال ہو گی اور اسے کسی صورت ختم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ریزرویشن کو آئینی طور پر ختم کرنے کی جانب ذرا سی بھی حقیقی پیش رفت ہوئی تو بھارت ’’دنوں‘‘ میں بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ دلت اپنے حقوق کے ضمن میں بے انتہا حساس ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر میرٹ پر بات آئی تو متعصب برہمنوں کی وجہ سے نہ انھیں نوکری ملے گی نہ کچھ اور ۔ لہذا آنے والے دنوں میں جب یہ بحران کھڑا ہو گا تو درحقیقت اسی بنیاد پر کھڑا ہو گا۔’’آر ایس ایس‘‘ کے سابق چیف سودرشن، موجودہ چیف موہن بھاگوت اور دیگر طبقات وقتاً فوقتاً اس ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ مگر اچھوتوں کی طرف سے آنے والے شدید ردعمل کو دیکھ کر مصلحتاً وقتی طور پر خاموش ہو جاتے ہیں اور درحقیقت آنے والے دنوں میں یہی بھارت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ جس حساب سے بھارت میں اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف متشدد واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے،اس سے خود بھارت کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے ’’آر ایس ایس‘‘ کے چیف موہن بھاگوت اور وشو ہندو پریشد کے سربراہ پروین تگوڑیا نے 2015 میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی جینتی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں کو تاکید کی تھی کہ 2021 یعنی اگلی مردم شماری تک بھارت سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا مکمل خاتمہ کر دیں تا کہ 800 سال بعد بھارت مکمل طور سے رام راجیے اور اکھنڈ بھارت میں تبدیل ہو سکے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے تمام حلقوں نے اپنی سوچی سمجھی رائے ظاہر کی ہے کہ یوں تو ’’آر ایس ایس‘‘ ، بی جے پی اور سنگھ پریوار کے دیگر گروہوں کا خیال ہے کہ 2025 کو ’’آر ایس ایس‘‘ کے قیام کے 100 سو سال پورے ہونے کے حوالے سے ’’آر ایس ایس‘‘ کے بانی ڈاکٹر ہیگواڑ کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ موصوف کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے مگر عالمی دباؤ کی وجہ سے شاید 2020 میں بھی ریزرویشن سیٹوں کی مدت کو مزید دس سال یعنی 2030 کے لئے توسیع دے دی جائے مگر جنونی ہندو گروہ اس صورتحال کو غیر معینہ عرصہ تک جاری رکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے اغلب امکان ہے کہ 2031 میں ریزرویشن کے موجودہ نظام کو پوری طرح سمیٹ دینے کی جانب عملی پیش رفت ہو گی اور یقیناً یہی وہ لمحہ ہو گا جب بھارت اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہو گا، یوں اگلے مرحلے میں بھارت میں عمل اور ردعمل کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گا کہ اس سے اگلے چند سال میں بھارت اپنی موجودہ شکل میں موجود نہیں رہ پائے گا۔ بہر کیف اسے اتفاق یا سوئے اتفاق جو بھی کہا جائے گا کہ 90 سال ہی انگریز حکومت باقاعدہ طور پر برصغیر پر قابض رہی یعنی 1857 سے 1947 تک، اور اب 1947 سے 2037 تک بھی 90 سال کا عرصہ بنتا ہے اور اس میں بھارت اپنی موجودہ شکل غالباً تبدیل کر چکا ہو گا۔
چار اگست کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)