Newspaper Article 14/11/2016
ذرائع کے مطابق گذشتہ روز شاہ نورانی درگاہ پر جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا اس کے لئے ’’ را ‘‘ اور ’’ این ڈی ایس ‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ سی پیک جانے والے تجارتی کافلے سے محض چند گھنٹے پہلے یہ مکروہ کاروائی کی گئی ۔ اور اگر اس سانحے کے محرکات اور شواہد پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ سی پیک کے خلاف سازشوں کی تازہ ترین کڑی ہے ۔
دوسری جانب دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے کہا ہے کہ مودی اور ان کے ساتھیوں نے غریب بھارتی عوام کے خلاف جو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کی ہے اس نے عام بھارتی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اور انھیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ مودی جی نے ان سے کس جنم کا بدلہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ گانگریس کے نائب صدر ’’ راہل گاندھی ‘‘ نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے پاس واقعی کالا دھن موجود تھا وہ تو انھوں نے سونے چاندی اور جائیداد کی شکل میں اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ دہلی سرکار کی موجودہ حرکت کا نشانہ تو صرف افلاس زدہ بھارتی عوام بن رہے ہیں جو پہلے سے ہی روزی روٹی کے محتاج ہیں اور سسک سسک کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت میں جب سے 500 اور1000 روپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی لگی ہے عوام ایک بحرانی کشمکش کا شکار ہیں، کاروبار ٹھپ ہیں اور افواہوں کا بازار گرم ہے۔یکایک بہت سے لوگوں کے پیشے بے معنی ہوگئے۔ جیب میں نوٹ تو ہیں لیکن انھیں لینے والا کوئی نہیں۔
نوٹ بدلوانے اور اپنے پیسے نکالنے کے لیے بھارت کے طول و عرض کے تمام بینکوں میں لوگوں کی کثیر تعداد قطاروں میں نظر آ رہی ہے۔ جبکہ بہت سے مقامات پر بے قابو ہجوم کو قابو کرنے کے لیے پولیس کی مدد لینی پڑی ہے۔
بھارتی دارالحکومت دہلی سمیت پورے ہندوستان میں صبح بینک کھلنے سے پہلے ہی لوگوں کی بڑی قطاریں تمام بینکوں کے باہر لگ جاتی ہیں ۔ کئی لوگ تو منھ اندھیرے ہی بینک کے دروازے پر آ کھڑے ہو تے ہیں ۔ زیادہ تر اے ٹی ایم میں پیسے نہ ہونے کی شکایتیں مل رہی ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث و مباحثہ جاری ہے جس میں ایک ٹرینڈ مستقل نظر آ رہا ہے ’بینکوں میں قطاریں، مودی جی فرار۔‘
خیال رہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ملک میں کالے دھن پر اچانک حملے کی زد میں سب سے پہلے بھارت کی غریب عوام آئے ہیں جبکہ خود نریندر مودی گذشتہ تین روز سے جاپان کے دورے پر تھے ۔ سوشل میڈیا پر اس صورت حال کو بھارتی وزیراعظم کے جاپان دورے کے تعلق سے پیش کیا جا رہا ہے۔وکاس یوگی نام کے ٹوئٹر صارف لکھتے ہیں ’صبح نہ دودھ، نہ شام کو کھانا آسان! صاحب کو کیا! وہ تو نکل لیے جاپان!‘۔ سمیرورما نام کے ایک اور ٹوئٹر صارف لکھتے ہیں ’خط نہ کوئی پیغام، فون نہ کوئی تار، بینکوں میں لگی قطار، کہاں تم ہوئے ہو فرار۔‘ایک دوسرے ٹوئٹر صارف اشوک ملہوترا کے مطابق ’بینکوں میں قطار، کر کے پی ٹی ایم کا پرچار (تشہیر)، صاحب ہوئے فرار۔‘
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مودی کے انتہائی قریبی حلقے ان کو ’’ صاحب ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے بھارت کی داخلی سیاست سے آگاہی رکھنے والے حلقوں نے کہا ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستانی وزیر اعظم خیالی پلاؤ بنانے میں یکتائے روزگار ہیں اور اس حوالے سے نت نئی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔ اپنی اسی روائتی روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے موصوف نے گذشتہ ایک ہفتے سے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے ۔ اور اس سلسلے میں بنا کسی پیشگی ہوم ورک کے یہ انتہائی قدم اٹھایا گیا اور اب معاملات ہیں کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہے ۔
بھارتی حکام کی ناہلی کا یہ عالم ہے کہ دو ہزار کا جو نوٹ متعارف کرایا گیا ہے ۔ اس کا سائز اتنا زیادہ ہے کہ اے ٹی ایم کی مشین سے ایک نوٹ کو نکلنے میں کم از کم دو منٹ صرف ہوتے ہیں ۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے طول و عرض میں ڈیڑھ لاکھ اے ٹی ایم مشینیں ہیں اور بھارت کی آبادی ایک ارب پچیس کروڑ سے زائد ہے ۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ڈیڑھ لاکھ میں سے بھی صرف اسی ہزار مشینوں میں نئی کرنسی دستیاب ہے ۔ ایسے میں عام لوگوں کی حالتِ زار کا اندازہ بھی بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ لوگوں کی مشکلات کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتے میں سینکڑوں لوگ اس وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کہ جیبوں میں پیسہ ہونے کے باوجود ہسپتال انھیں قبول کرنے سے انکاری ہیں جس کے نتیجے میں مریضوں کو بر وقت طبی امداد پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے ۔ اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے ایک گاؤں میں ’’ جانکی دیوی ‘‘ نامی عورت نے اسی وجہ سے خود کشی کر لی ۔ یوں بھارت بھر میں صرف گذشتہ چند روز میں نوٹوں کی مشکلات کی بدولت کی گئی خود کشیوں کی تعداد مجموعی طور پر 8 ہو چکی ہے ۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ بھارت کے بعض دور افتادہ دیہی علاقوں میں سو کلو میٹر سے بھی زائد فاصلہ طے کر کے لوگ اپنے نوٹ بدلوانے کے لئے جاتے ہیں ۔
سماج وادی پارٹی کے موجودہ سربراہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ’’ اخلیش یاد ‘‘ ، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ’’ ممتا بینر جی ‘‘ اور بہو جن سماج پارٹی کی سربراہ اور تین دفعہ اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ ’’ مایا وتی ‘‘ نے بھی اسی پس منظر میں کہا ہے کہ مودی جی کی یہ حرکت انھیں بہت مہنگی پڑے گی اور عام ہندوستانی اس کے نتیجے میں مودی اور ان کے ہمنواؤں سے مزید متنفر ہو جائیں گے جس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں ہندوستان کو بھگتنا پڑے گا ۔
دوسری جانب دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے کہا ہے کہ مودی اور ان کے ساتھیوں نے غریب بھارتی عوام کے خلاف جو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کی ہے اس نے عام بھارتی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اور انھیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ مودی جی نے ان سے کس جنم کا بدلہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ گانگریس کے نائب صدر ’’ راہل گاندھی ‘‘ نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے پاس واقعی کالا دھن موجود تھا وہ تو انھوں نے سونے چاندی اور جائیداد کی شکل میں اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ دہلی سرکار کی موجودہ حرکت کا نشانہ تو صرف افلاس زدہ بھارتی عوام بن رہے ہیں جو پہلے سے ہی روزی روٹی کے محتاج ہیں اور سسک سسک کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت میں جب سے 500 اور1000 روپے کے کرنسی نوٹوں پر پابندی لگی ہے عوام ایک بحرانی کشمکش کا شکار ہیں، کاروبار ٹھپ ہیں اور افواہوں کا بازار گرم ہے۔یکایک بہت سے لوگوں کے پیشے بے معنی ہوگئے۔ جیب میں نوٹ تو ہیں لیکن انھیں لینے والا کوئی نہیں۔
نوٹ بدلوانے اور اپنے پیسے نکالنے کے لیے بھارت کے طول و عرض کے تمام بینکوں میں لوگوں کی کثیر تعداد قطاروں میں نظر آ رہی ہے۔ جبکہ بہت سے مقامات پر بے قابو ہجوم کو قابو کرنے کے لیے پولیس کی مدد لینی پڑی ہے۔
بھارتی دارالحکومت دہلی سمیت پورے ہندوستان میں صبح بینک کھلنے سے پہلے ہی لوگوں کی بڑی قطاریں تمام بینکوں کے باہر لگ جاتی ہیں ۔ کئی لوگ تو منھ اندھیرے ہی بینک کے دروازے پر آ کھڑے ہو تے ہیں ۔ زیادہ تر اے ٹی ایم میں پیسے نہ ہونے کی شکایتیں مل رہی ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث و مباحثہ جاری ہے جس میں ایک ٹرینڈ مستقل نظر آ رہا ہے ’بینکوں میں قطاریں، مودی جی فرار۔‘
خیال رہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ملک میں کالے دھن پر اچانک حملے کی زد میں سب سے پہلے بھارت کی غریب عوام آئے ہیں جبکہ خود نریندر مودی گذشتہ تین روز سے جاپان کے دورے پر تھے ۔ سوشل میڈیا پر اس صورت حال کو بھارتی وزیراعظم کے جاپان دورے کے تعلق سے پیش کیا جا رہا ہے۔وکاس یوگی نام کے ٹوئٹر صارف لکھتے ہیں ’صبح نہ دودھ، نہ شام کو کھانا آسان! صاحب کو کیا! وہ تو نکل لیے جاپان!‘۔ سمیرورما نام کے ایک اور ٹوئٹر صارف لکھتے ہیں ’خط نہ کوئی پیغام، فون نہ کوئی تار، بینکوں میں لگی قطار، کہاں تم ہوئے ہو فرار۔‘ایک دوسرے ٹوئٹر صارف اشوک ملہوترا کے مطابق ’بینکوں میں قطار، کر کے پی ٹی ایم کا پرچار (تشہیر)، صاحب ہوئے فرار۔‘
یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مودی کے انتہائی قریبی حلقے ان کو ’’ صاحب ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے بھارت کی داخلی سیاست سے آگاہی رکھنے والے حلقوں نے کہا ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستانی وزیر اعظم خیالی پلاؤ بنانے میں یکتائے روزگار ہیں اور اس حوالے سے نت نئی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔ اپنی اسی روائتی روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے موصوف نے گذشتہ ایک ہفتے سے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے ۔ اور اس سلسلے میں بنا کسی پیشگی ہوم ورک کے یہ انتہائی قدم اٹھایا گیا اور اب معاملات ہیں کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہے ۔
بھارتی حکام کی ناہلی کا یہ عالم ہے کہ دو ہزار کا جو نوٹ متعارف کرایا گیا ہے ۔ اس کا سائز اتنا زیادہ ہے کہ اے ٹی ایم کی مشین سے ایک نوٹ کو نکلنے میں کم از کم دو منٹ صرف ہوتے ہیں ۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے طول و عرض میں ڈیڑھ لاکھ اے ٹی ایم مشینیں ہیں اور بھارت کی آبادی ایک ارب پچیس کروڑ سے زائد ہے ۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ڈیڑھ لاکھ میں سے بھی صرف اسی ہزار مشینوں میں نئی کرنسی دستیاب ہے ۔ ایسے میں عام لوگوں کی حالتِ زار کا اندازہ بھی بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ لوگوں کی مشکلات کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتے میں سینکڑوں لوگ اس وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کہ جیبوں میں پیسہ ہونے کے باوجود ہسپتال انھیں قبول کرنے سے انکاری ہیں جس کے نتیجے میں مریضوں کو بر وقت طبی امداد پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے ۔ اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے ایک گاؤں میں ’’ جانکی دیوی ‘‘ نامی عورت نے اسی وجہ سے خود کشی کر لی ۔ یوں بھارت بھر میں صرف گذشتہ چند روز میں نوٹوں کی مشکلات کی بدولت کی گئی خود کشیوں کی تعداد مجموعی طور پر 8 ہو چکی ہے ۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ بھارت کے بعض دور افتادہ دیہی علاقوں میں سو کلو میٹر سے بھی زائد فاصلہ طے کر کے لوگ اپنے نوٹ بدلوانے کے لئے جاتے ہیں ۔
سماج وادی پارٹی کے موجودہ سربراہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ’’ اخلیش یاد ‘‘ ، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ’’ ممتا بینر جی ‘‘ اور بہو جن سماج پارٹی کی سربراہ اور تین دفعہ اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ ’’ مایا وتی ‘‘ نے بھی اسی پس منظر میں کہا ہے کہ مودی جی کی یہ حرکت انھیں بہت مہنگی پڑے گی اور عام ہندوستانی اس کے نتیجے میں مودی اور ان کے ہمنواؤں سے مزید متنفر ہو جائیں گے جس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں ہندوستان کو بھگتنا پڑے گا ۔
چودہ نومبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا دارہ ذمہ دار نہیں )