Newspaper Article 07/03/2014
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی حکومت نے جبرو استبداد کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ ایسا کھلا راز ہے جس کی بابت عالمی رائے عامہ بڑی حد تک سب کچھ جانتی ہے مگر موثر عالمی قوتیں اپنی وقتی مصلحتوں کے تحت چشم پوشی کر رہی ہیں ۔دہلی سرکار کی جانب سے جاری اس جارحانہ روش میں مقبوضہ ریاست کے بعض بھارت نواز حلقے خاصا منفی کردار ادا کر رہے ہیں خصوصا نمائشی وزیرِ اعلیٰ ’’عمر عبداللہ ‘‘اور ان کے قریبی احباب اس سلسلے میں گویا ہراول دستے ہیں ۔تبھی تو یکم مارچ کو مقبوضہ ریاست کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور عمر عبداللہ کے والدِ محترم فاروق عبداللہ نے پوری کشمیری قوم کی بابت جو غیر اخلاقی ریمارکس دیئے ،اس کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے طول و عرضٗ میں سخت احتجاج ہو رہا ہے ۔واضح رہے کہ موصوف نے بھارت میں توانائی بحران خصوصاً بجلی کی کمی کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار (دہلی )میں پوری کشمیر ی قوم کی بابت یہ گوہر افشانی کی کہ ’’وہ نہ صرف چور بلکہ مہا چور ہیں‘‘۔
ظاہر ہے یہ ایسی بات ہے جس پر جتنی بھی تنقید کی جائے کم ہے کیونکہ کسی بھی قوم یا گروہ کی بابت اجتماعی طور پر ایسے ریمارکس دینا انتہائی نا مناسب ہے اور یوں بھی مقبوضہ ریاست کے کشمیری تو خود گذشتہ 66 برسوں سے بد ترین مصائب جھیل رہے ہیں جن کی وجوہات میں سے ایک جنابِ شیخ عبداللہ،فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی ملت فروشی کی روایت بھی ہے ۔یہاں اس امر کا ذکر بھی شاید بے جا نہ ہو کہ کچھ عرصہ قبل فاروق عبداللہ کی صاحبزادی ’’سارہ عبداللہ‘‘ کی شادی بھی ایک آنجہانی کانگرسی رہنماراجیش پائلٹ کے فرزند ’’سچن پائلٹ‘‘ سے ہوئی۔کشمیری عوام کی اکثریت نے ایک ہندو سے اس شادی کے خلاف سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔یاد رہے کہ سچن پائلٹ منموہن سنگھ کی کابینہ میں اس وقت بھی وزیر ہیں۔
بہر کیف اسی پس منظر میں مبصرین نے اس امر کو اہم قرار دیا ہے کہ 3 مارچ 2014 کو مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی میں ایک سوال کے تحریر ی جواب میں عمر عبداللہ حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ چار برس میں ریاست میں لائسنس کے نام پر 207721 ہتھیار تقسیم کیے گئے اسمبلی میں ’’JKNPP ‘‘ جماعت کے رکن محمد رفیق شاہ کے سوال کے جواب میں مقبوضہ کشمیر کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ 2009 تا 2013 کے چار برسوں میں 2 لاکھ 7 ہزار 721 افراد کو اسلحہ کے لائسنس جاری کیے گئے جن کی ضلع وار تفصیل درج ذیل ہے۔
سری نگر 70187 ، ڈوڈہ 28288 ، را جوڑی 15844 ، رام بن 15263 ، شوپیاں 13396 ،کشتواڑ 10543 ،ا ودھم پور 9088 ،جموں 7223 ،پلوامہ 6830 ،کلگام 6606 ،کارگل 1371 ،پونچھ 1607 ،کپواڑہ 814 ،سامبا 504 ،بارہ مولہ 473،کٹھوعہ 360 ،اننت ناگ 151 ، لییہ 147 ،گاندر بل 105 ،رائیسی 74 ،بڈگام 19 ،بانڈی پورہ 17 ۔
یاد رہے کہ یہ تمام ہتھیار حکومت نے اپنے خاص حامیوں اور انڈین آرمی ،پیراملٹری فورسز اور پولیس والوں کے رشتہ داروں کو دیئے ۔مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں مقبوضہ ریاست میں شدت پسندی کے واقعات کے لئے پاکستان کو موردِ الزام ٹہرانا سراسر نا انصافی ہے۔کیونکہ جب خود دہلی سرکار اور اس کے آلہ کاروں نے اتنے بڑے پیمانہ پر اسلحہ لائسنس کے نام پر اپنے لوگوں میں ہتھیار تقسیم کیے ہیں تب شدت پسندی کے لئے سرحد پار دہشتگردی کے الفاظ استعمال کرنا قطعاً قرین انصاف نہیں ۔یہ ہتھیار 1959 کے آرمز ایکٹ اور 1962 کو آرمز رولز کے تحت بانٹے گئے ۔امید کی جانی چاہیے کہ سبھی اصول پسند اور انسان دوست حلقے عالمی اور علاقائی سطح پر اس اعتراف کے بعد بھارت کے دوہرے میعاروں کو سامنے رکھتے ہوئے دہلی سرکار کی حوصلہ شکنی کے ضمن میں اپنا انسانی فریضہ نبھائیں گے۔
نو مارچ کو ڈیلی نوائے وقت میں شائع ہوا
مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیلالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں