Newspaper Article 02/11/2017
سوال یہ اٹھتا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر بھارت کا رد عمل کیا ہے؟۔اس کا جائزہ لیا جائے تو جیوپولیٹکس کی وجہ سے بھارت کا رویہ روہنگیا بحران کے ضمن میں کسی حد تک مایوس کن ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دہلی سرکار غالباً بھارتی عوام پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ میانمار بحران کے ضمن میں بھارتی رویہ چین کی نسبت زیادہ قربت پر مبنی ہے ۔اسی تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اورچین کی باہمی رقابت ہی بھارت کے مشرقی ہمسایوں سے متعلق اس کی پالیسی کو عیاں کرتی ہے ۔
تاہم ابتدا میں بھارت کی خطے میں پوزیشن جتنی پہلے معیاری اور کلی طور پر حاوی دکھائی دیتی تھی وہ جیو پولیٹکس کی بدولت اتنی موثر نہیں ۔ بیشک، بھارتی ادارے 40,000 روہنگیا مہاجرین کو اپنی سلامتی کے لئے خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور ان کے انخلا کی باتیں کر رہے ہیں۔
اس بھارتی موقف کو متعین کرنے میں نظریاتی عوامل بھی ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔کیونکہ 2016 میں ہونے والی بھارتی شہریت کے قوانین میں ترامیم بھی بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے مسلم مہاجرین کو بھارتی شہریت حاصل کرنے سے مانع ہے ۔واضح رہے کہ اس ترمیم کی رُو سے مہاجرین کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لئے غیر مسلم ہونا لازم ہے۔
بھارتی موقف کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ مفروضوں اور سازشی تھیوری کے تحت معتین ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، بھارتی تجزیہ نگاروں کے الزامات کے مطابق 25 اگست کو برما کی سیکورٹی فورسز پر مبینہ حملے کرنے والے روہنگیا مسلح گروہ کے تانے بانے پاکستانی خفیہ اداروں اور لشکرِ طیبہ سے ملتے ہیں ۔ کچھ بھارتی مبصرین گوہر افشانی کرتے ہوئے یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ پاکستان نے 25 اگست والے حملے کی اس وجہ سے اعانت کی کہ بنگلہ دیش کی بھارت نواز حکومت کو مزید مشکل میں ڈالا جائے۔ حالانکہ ان بھارتی الزامات کو ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کے کوئی ٹھوس شواہد مہیا نہیں کیے گئے۔ بجا طور پر ہر باشعور یہ سوال کرتا ہے کہ اگر بھارت کا یہ مفروضہ ٹھیک ہے تو پھر روہنگیا باغیوں کے پاس اتنی معمولی اور محدود قوت کیوں ہے ۔
علاوہ ازیں بھارتی حکومت یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ بھارت میں موجود روہنگیا مہاجرین کے داعش سے روابط ہیں۔ اگرچہ یہ لا یعنی حد تک مبہم بات ہے۔ حالانکہ وسیع تر تناظر میں ، خود بھارت کے اکثر تجزیہ نگار حتی کہ بھارت کے بعض حکومتی حلقے بھی دہلی سرکار کے ان دعووں پر یقین کرنے کو آمادہ نہیں، کیونکہ یہ امر انتہائی توجہ طلب ہے کہ مبینہ طور پر خود ’’ اراکان روہنگیا سلویشن آرمی ‘‘ ( اے آر ایس اے ) روہنگیا باغیوں کی پاکستانی یا کسی بھی بیرونی سرپرستی کی تردید کرتی ہے ۔
حالانکہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اگر کسی خاص نسلی گروہ کو شہری حقوق دینے سے انکار کیا جائے ، انھیں اپنے آبائی علاقوں سے ہی بے دخل اور محروم کیا جائے ، عملی طور پر ان کی نسلی کشی کی کوشش جائے تو یہ تمام باتیں کسی بھی گروہ کو بغاوت پر مجبور اور آمادہ کرنے کے لئے کافی ہیں ۔
یوں بادی النظر میں بھارتی موقف مخصوص جغرافیائی صورتحال کا عکاس اور تضادات پر مبنی ہے۔ لیکن بظاہر لگتا ہے کہ تہذیبوں کے باہمی تصادم ( کلیش آف سولائیزیشن )کی مبینہ تھیوری بھی بھارتی حکومت کے آپشنز میں کار فرما رہی ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔
بلاشبہ یہ روش بھارتی حکومت کے لئے افادیت کا باعث نہیں کیونکہ یہ نہرو کی سیکولر انڈیا کے دعووں کی مکمل نفی کے مترادف ہے جن دعووں کے مطابق بھارت میں عیسائیوں، ہندوؤں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہیں اگرچہ زمینی حقائق اس سے مختلف بلکہ متضاد ہیں ۔ اس روش سے دہلی سرکار کی روہنگیا اور مسلم دشمنی مکمل طور پر اظہر من الشمس ہو رہی ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد مسلم آبادی کے لحاظ سے بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔
مندرجہ بالا تمام تجزیے کے بعد یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ بھارت کی تعصب سے بھرپور اور دور اندیشی سے عاری پالیسیاں نہ صرف روہنگیا مہاجرین کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب کریں گی بلکہ تمام جنوبی ایشیائی ممالک جو کہ روہنگیا بحران سے متاثر ہیں، پر اثر انداز ہو سکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خود بھارت کی سیاست،سفارت اور سلامتی کے لئے بھی زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تحریر: ڈیڈیئر شودت:فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں۔ وہ افغانستان، پاکستان، ایران اوروسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور‘‘، ’’پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز‘‘، ’’فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز‘‘ اور ’’یالے یونیورسٹی‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’اپری‘‘ (اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) سے ’’نان ریزیڈنٹ سکالر‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں۔ ترجمعہ: اصغر علی شاد
دو نومبر کو روزنامہ اذکار میں شائع ہوا ۔
تین نومبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )