Newspaper Article 16/09/2018
ایک جانب 14 اگست کے حوالے سے عید آزادی کا تہوار پورے قومی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا رہا ہے ۔اسی تناظر میں سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ دور حاضر میں میڈیا کی اثر پذیری اور قوت سے بھلا کسے انکار ہو سکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کا استعمال بالعموم منفی ڈھنگ سے ہی کیا جاتا ہے مثال کے طور پر بڑے سے بڑا سرمایہ دار معقول معاوضہ دیئے بغیر چند سیکنڈ کا اشتہار بھی نہیں چلا سکتا مگر جرائم پیشہ افراد کا تذکرہ اس میڈیا پر اتنے تسلسل کے ساتھ ہوتا ہے کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ ابلاغ کا یہ ذریعہ شاید جرائم کی تشہیر کے لئے ہی وجود میں آیا ہے ۔ بہر کیف یہ تو شاید جملہ معترضہ ہے ۔دوسری جانب بعض حکومتیں بھی اس ضمن میں میڈیا کے ذریعے اپنے پسماندہ طبقات کا استحصال اس انداز میں کرتی ہیں کہ گویا یہ ان کی ریاستی پالیسی کے بنیادی نکا ت کا حصہ ہے مبصرین کی رائے ہے کہ ہندوستان 15 اگست 1947 کووجود میں آیا تو دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو توقع تھی کہ یہ ملک شاید آگے چل کر محکوم قوموں کے علم بردار کے طور پر کام کرے گا کیونکہ ہندو قوم لگ بھگ 1200 سال تک بڑی حد تک محکوم رہی ہے اس وجہ سے اس کے بالا دست طبقات کو بخوبی احساس ہو گا کہ غلام قو میں کس حد تک ذہنی ابتری کا شکار ہوتی ہیں مگر بھارتی حکمرانوں نے اپنی آزادی کے بعد اپنی روش سے ثابت کر دیا کہ ان کی بابت ابتداء میں جن خوش گمانیوں کا اظہار کیا گیا وہ سراسر خوش فہمی ہیں ۔واضح رہے کہ دہلی کے حکمران سوچے سمجھے ڈھنگ سے اپنی اقلیتوں کے خلا ف ریاستی دہشتگردی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ محض سفارتی ،سیاسی یا مذہبی محاذ پر ہی نہیں چل رہا بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ اس منفی روش سے محفوظ نہیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دہلی کے بالادست طبقات نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے استحصال کا عمل بھی شروع کر رکھا ہے ۔یہ بات کچھ عرصہ قبل تب سامنے آئی جب پرویز دیوان نامی اعلیٰ بھارتی عہدے دار نے ’’کلچرل امپیرئل ازم، کاسٹ ہندو ہیروز آل ادرز آر وِلنز‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ۔یہ ضخیم کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔واضح رہے کہ موصوف کوئی عام مصنف نہیں بلکہ بھارت سرکار میں کچھ عرصہ قبل تک مرکزی سیکرٹری ٹور ازم کے عہدے پر کام کر رہے تھے اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں۔ 2016 میں انھیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارہ شعبوں کا ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا۔
پرویز دیوان کے مطابق انھوں نے 20 سال کی محنت کے بعد یہ کام مکمل کیا ۔یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد قرار پاتی ہے کہ اس میں بھارتی معاشرت میں مختلف مذہبی گروہوں اور لسانی اقلیتوں کا قطعاً ایک نئے ڈھنگ سے جائزہ لیا گیا ہے ۔مصنف کے بقول انھوں نے 786 ہندی فیچر فلموں،بھارتی ٹی وی سے دکھائے جانے والے 300 سے زائد سلسلہ وار ڈراموں اور دور درشن کے 400 اشتہارات کا بغور جائزہ لے کر اس کتاب کو مرتب کیا ہے ۔مزکورہ تحقیق میں اس امر کا تفصیلی تذکرہ ہے کہ بھارتی فلموں اور ٹی وی چینلز کس طرح اپنی نشریات کے ذریعے اقلیتوں کو چھوٹی سطح کے انسانوں اور معاشرتی حیوان کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔
مصنف کے مطابق ہندی فلموں میں سکھوں کو عمومی طور پر مالی لحاظ سے نسبتاً خوشحال مگر عقل سے پیدل انسانوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عیسائی مردوں کو شکل اور جسمانی لحاظ سے بھدے روپ میں دکھایا جاتا ہے جن کے ایک ہاتھ میں ہمیشہ شراب وغیرہ کی بوتل دکھائی جاتی ہے یا پھر انھیں غنڈوں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے گویا ان کا مقصدِ حیات ہی غنڈہ گردی اور مہ نوشی ہو ۔یہ لوگ کسی نہ کسی مافیا گروہ کی معمولی کٹھ پتلیوں کے طور پر جرائم کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ان گروہوں کے سربراہ اکثر اونچی ذات کے ہندو ہوتے ہیں جو آریا نسل سے متعلقہ ہوتے ہیں یوں بالواسطہ طور پر اونچی ذات کے ہندووں کو قوت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔اس سارے کھیل کا مقصد شعوری طور پر اونچی ذات کے ہندووں کی برتری کا احساس دلانا ہوتا ہے۔اس تحقیق کے مطابق عیسائی مردوں کو شاید ہی کسی ہندو عورت سے شادی کرتے دکھایا جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو ایسی شادی کا انجام تباہی اور بے سکونی پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔اس کے بر عکس عیسائی خواتین کو جسمانی لحاظ سے دلکش مگر اخلاقی طور پر انتہائی پست ظاہر کیا جاتا ہے ۔جو بے تکلفی سے سگریٹ نوشی اور شراب کی رسیا ہوتی ہیں ۔
بھارتی فلموں اور ڈراموں میں مسلمانوں کو روایتی حلیہ میں پیش کرنا لازمی خیال کیا جاتا ہے جو زیادہ تر بوڑھے، معذور،نچلے درجے کے ماتحت اور لالچی طبیعت کے ہوتے ہیں ۔اگر کسی وجہ سے وہ ان کیٹاگریز میں شامل نہیں کیے جاتے تو پھر مسلمان کرداروں کی کثیر العیالی کے ذریعے فلم یا ڈرامے میں گھٹیا درجے کا مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔البتہ ایک آدھ مسلمان کردار کو مثبت مگر اذیت پسند دکھایا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پارسی عقائد سے تعلق رکھنے والوں کو ہمیشہ سست الوجود اور اپاہج دکھانا بھارتی الیکٹرانک میڈیا اپنا فرض سمجھتا ہے۔شمال مشرقی بھارت اور چینی نسل کے افراد کو زیادہ تر زیرِ زمین سرگرمیوں میں ملوث ظاہر کیا جاتا ہے ۔جنوبی ہندوستان کے تامل باشندوں کو شیطان صفت اور حیدر آباد دکن سے متعلقہ کرداروں کو مضحکہ خیز حد تک ’’جوکر‘‘ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس تناظر میں پرویز دیوان کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی اس ثقافتی استحصال کی پالیسی کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے وگرنہ جلد یا بدیر بھارتی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آئے گا جس کے اثرات بھارت کے حکمرانوں کو بھگتنے پڑیں گے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ ہندوستان کی یہ ثقافتی دہشتگردی حالیہ برسوں میں مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کا شکار ایک جانب عام بھارتی مسلمان اور نہتے کشمیری بن رہے ہیں تو دوسری جانب نچلی ذات کے ہندو طبقات کو بڑے منظم انداز سے دیوار سے لگایا جا رہا ہے تا کہ اونچی ذات کے ہندو اپنی دانست میں اپنی صدیوں تک غلامی کا بدلہ چکا سکیں۔
توقع کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس امر کا ادراک کریں گے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کے دعووں کے پسِ پردہ بھارت انسانی حقوق کی پامالیوں کا کس حد تک مرتکب ہو رہا ہے ۔اس صورتحال کی اصلاح کے لئے عالمی رائے عامہ نے موثر اقدامات نہ اٹھائے تو تاریخ میں عالمی چشم پوشی کو یقیناً اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھا جائے گا۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دہلی کے بالادست طبقات نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے استحصال کا عمل بھی شروع کر رکھا ہے ۔یہ بات کچھ عرصہ قبل تب سامنے آئی جب پرویز دیوان نامی اعلیٰ بھارتی عہدے دار نے ’’کلچرل امپیرئل ازم، کاسٹ ہندو ہیروز آل ادرز آر وِلنز‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ۔یہ ضخیم کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔واضح رہے کہ موصوف کوئی عام مصنف نہیں بلکہ بھارت سرکار میں کچھ عرصہ قبل تک مرکزی سیکرٹری ٹور ازم کے عہدے پر کام کر رہے تھے اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں۔ 2016 میں انھیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارہ شعبوں کا ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا۔
پرویز دیوان کے مطابق انھوں نے 20 سال کی محنت کے بعد یہ کام مکمل کیا ۔یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد قرار پاتی ہے کہ اس میں بھارتی معاشرت میں مختلف مذہبی گروہوں اور لسانی اقلیتوں کا قطعاً ایک نئے ڈھنگ سے جائزہ لیا گیا ہے ۔مصنف کے بقول انھوں نے 786 ہندی فیچر فلموں،بھارتی ٹی وی سے دکھائے جانے والے 300 سے زائد سلسلہ وار ڈراموں اور دور درشن کے 400 اشتہارات کا بغور جائزہ لے کر اس کتاب کو مرتب کیا ہے ۔مزکورہ تحقیق میں اس امر کا تفصیلی تذکرہ ہے کہ بھارتی فلموں اور ٹی وی چینلز کس طرح اپنی نشریات کے ذریعے اقلیتوں کو چھوٹی سطح کے انسانوں اور معاشرتی حیوان کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔
مصنف کے مطابق ہندی فلموں میں سکھوں کو عمومی طور پر مالی لحاظ سے نسبتاً خوشحال مگر عقل سے پیدل انسانوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عیسائی مردوں کو شکل اور جسمانی لحاظ سے بھدے روپ میں دکھایا جاتا ہے جن کے ایک ہاتھ میں ہمیشہ شراب وغیرہ کی بوتل دکھائی جاتی ہے یا پھر انھیں غنڈوں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے گویا ان کا مقصدِ حیات ہی غنڈہ گردی اور مہ نوشی ہو ۔یہ لوگ کسی نہ کسی مافیا گروہ کی معمولی کٹھ پتلیوں کے طور پر جرائم کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ان گروہوں کے سربراہ اکثر اونچی ذات کے ہندو ہوتے ہیں جو آریا نسل سے متعلقہ ہوتے ہیں یوں بالواسطہ طور پر اونچی ذات کے ہندووں کو قوت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔اس سارے کھیل کا مقصد شعوری طور پر اونچی ذات کے ہندووں کی برتری کا احساس دلانا ہوتا ہے۔اس تحقیق کے مطابق عیسائی مردوں کو شاید ہی کسی ہندو عورت سے شادی کرتے دکھایا جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو ایسی شادی کا انجام تباہی اور بے سکونی پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔اس کے بر عکس عیسائی خواتین کو جسمانی لحاظ سے دلکش مگر اخلاقی طور پر انتہائی پست ظاہر کیا جاتا ہے ۔جو بے تکلفی سے سگریٹ نوشی اور شراب کی رسیا ہوتی ہیں ۔
بھارتی فلموں اور ڈراموں میں مسلمانوں کو روایتی حلیہ میں پیش کرنا لازمی خیال کیا جاتا ہے جو زیادہ تر بوڑھے، معذور،نچلے درجے کے ماتحت اور لالچی طبیعت کے ہوتے ہیں ۔اگر کسی وجہ سے وہ ان کیٹاگریز میں شامل نہیں کیے جاتے تو پھر مسلمان کرداروں کی کثیر العیالی کے ذریعے فلم یا ڈرامے میں گھٹیا درجے کا مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔البتہ ایک آدھ مسلمان کردار کو مثبت مگر اذیت پسند دکھایا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پارسی عقائد سے تعلق رکھنے والوں کو ہمیشہ سست الوجود اور اپاہج دکھانا بھارتی الیکٹرانک میڈیا اپنا فرض سمجھتا ہے۔شمال مشرقی بھارت اور چینی نسل کے افراد کو زیادہ تر زیرِ زمین سرگرمیوں میں ملوث ظاہر کیا جاتا ہے ۔جنوبی ہندوستان کے تامل باشندوں کو شیطان صفت اور حیدر آباد دکن سے متعلقہ کرداروں کو مضحکہ خیز حد تک ’’جوکر‘‘ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس تناظر میں پرویز دیوان کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی اس ثقافتی استحصال کی پالیسی کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے وگرنہ جلد یا بدیر بھارتی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آئے گا جس کے اثرات بھارت کے حکمرانوں کو بھگتنے پڑیں گے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ ہندوستان کی یہ ثقافتی دہشتگردی حالیہ برسوں میں مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کا شکار ایک جانب عام بھارتی مسلمان اور نہتے کشمیری بن رہے ہیں تو دوسری جانب نچلی ذات کے ہندو طبقات کو بڑے منظم انداز سے دیوار سے لگایا جا رہا ہے تا کہ اونچی ذات کے ہندو اپنی دانست میں اپنی صدیوں تک غلامی کا بدلہ چکا سکیں۔
توقع کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس امر کا ادراک کریں گے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کے دعووں کے پسِ پردہ بھارت انسانی حقوق کی پامالیوں کا کس حد تک مرتکب ہو رہا ہے ۔اس صورتحال کی اصلاح کے لئے عالمی رائے عامہ نے موثر اقدامات نہ اٹھائے تو تاریخ میں عالمی چشم پوشی کو یقیناً اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھا جائے گا۔
گیارہ اگست 2018 کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)