Newspaper Article 01/03/2015
27 فروری کو دہلی میں پی ڈی پی کے سربراہ ’’ مفتی سعید ‘‘ نے مودی سے طویل ملاقات کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت قائم ہو گی ۔ یکم مارچ کو مفتی سعید مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھائیں گے جبکہ ’’ بی جے پی ‘‘کے ’’ نرمل سنگھ ‘‘ نائب وزیر اعلیٰ مقرر کیے گئے ۔جس میں مودی بھی شرکت کریں گے ۔
یاد رہے کہ حالیہ انتخابات میں مقبوضہ کشمیر میں ’’ پی ڈی پی ‘‘ نے اسی بنیاد پر ووٹ لئے تھے کہ مقبوضہ ریاست کو مودی اور ’’ بی جے پی ‘‘کی غلامی کے خطرے سے محفوظ رکھا جائے گا مگر حالیہ پیش رفت نے کشمیریوں کو حیران کر دیا ہے
اور وہ مفتی صاحب کی قلابازی دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ
کیا خبر تھی لا ڈبوئے گا ہمیں منجدھار میں
وہ ستم گر جس کو اپنا نا خدا سمجھے تھے ہم
اس صورتحال کا جائزہ لیں تو ہر ذی شعور حیران ہے کہ اقتدار کی چاہ میں کوئی فرد یا گروہ اس حد تک بھی جا سکتا ہے جہاں تک مفتی اور ان کی ’’ پی ڈی پی ‘‘ پہنچ چکی ہے ۔موصوف نے مودی سے ملاقات ے لئے جو دن مقرر کیا ہے وہ 27 فروری ہے جس دن 13 برس قبل مودی کی زیرسرپرستی گودھرا میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل شروع ہواتھا اور یکم مارچ نمائشی وزیر اعلیٰ کا حلف بھی تب اٹھایا جا رہا ہے جس روز احمد آباد کے گلی کوچوں میں خونِ مسلم اتنا ارزاں تھا جس کی مثال حالیہ تاریخ میں ڈھونڈ پانا بہت مشکل ہے ۔ اس سے پہلے 24 فروری کو ’’ پی ڈی پی ‘‘کی نائب سربراہ ’’ محبوبہ مفتی ‘‘ نے دہلی میں ’’ بی جے پی ‘‘کے صدر ’’ امت شاہ ‘‘ سے ملاقات کے بعد مقبوضہ ریاست میں ’’ بی جے پی ‘‘اور ’’ پی ڈی پی ‘‘ کے حکومتی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے جب اس کے نام نہاد فوائد کا بیان کیے تو کہ وہ اس شعر کی عملی تفسیر لگیں
ایسا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
یاد رہے کہ 23 اور 24 فروری کی درمیانی شب 1991 میں قابض بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے ’’ کنان پوش پورا‘‘ میں ایک سو سے زائد خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کی تھی اور ہر سال اس سانحے کی یاد میں کشمیری یومِ سیاہ مناتے ہیں ۔
دوسری طرف 28 فروری 2002 کو بھارتی صوبے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل شروع ہوا جو تقریباً تین ماہ تک جاری رہا ۔ اس وحشیانہ مہم کے دوران تقریباً 3 ہزار نہتے مسلمان زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیئے گئے ۔ ایک ہزار سے زائد لاپتہ ہو گئے جبکہ 3500 شدید زخمی ہو کر ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو گئے ۔ ہزاروں مکانات اور دکانیں جلا دی گئیں ۔ اس نسل کشی کے دوران ڈیڑھ لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی اکثریت تاحال سسک سسک کے زندگی کے دن گزار رہی ہے ۔ 230 مسجدیں اور د رگاہیں شہید کی گئیں جن میں تاریخی مسجد ’’ محافظ خان ‘‘ اور ’’ ولی گجراتی‘‘ اور ’’ ملک یامین ‘‘ کے مزار بھی شامل تھے ۔
27 فروری 2002 کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ’’ سابر متی ایکسپریس ‘‘ کی آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا ۔ جنونی ہندو گروہوں نے اس قدرتی سانحے کا الزام مسلمانوں پر دھر دیا اور یوں گجرات کے طول و عرض میں مسلمان اقلیت کا قتلِ عام شروع ہو گیا ۔آغاز میں احمد آباد کے علاقے ’’ گل برگ سوسائٹی ‘‘ میں لوک سبھا کے رکن ’’ احسان جعفری ‘‘ اور ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ’’ نرودہ پاٹیا ‘‘ اور دوسرے علاقوں میں بھی یہ سلسلہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ۔ اکثر غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ’’ گودھرا ‘‘ میں ’’ سابر متی ‘‘ ایکسپریس ٹرین کی آتش زدگی خود مسافروں کی کسی لا پرواہی کا نتیجہ تھی ۔ دہلی سرکار کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی ( جس کی سربراہی گجرات ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ’’ امیش چندر بینرجی ‘‘ نے کی ) اور جسٹس ناناوتی اور جسٹس شاہ کی سربراہی والے عدالتی کمیشن نے بھی اس سانحے کے لئے ٹرین میں سوار مسافروں اور مقامی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر سیکولر بھارت میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو محض مسلمان ہونے کے جرم میں میں زندہ جلا دیا گیا ۔
انسان دوست بھارتی اور مغربی دانشوروں کی اکثریت (جن میں ’’ تیستا سیتل واڑ ‘‘ ، ’’ سدھارت رنجن ‘‘ ، ’’ ارون دتی رائے ‘‘ ، ’’ یوگندر یادو ‘‘ ، ’’ راجیو شکلا ‘‘ اور ’’ کرن بیدی ‘‘ نمایاں ہیں ) نے اس سانحے کی شدت کے ضمن میں کہا کہ آزاد بھارت کی تاریخ مین پہلی بار ہندو خواتین نے بھی کئی مقامات پر اس سفاکانہ عمل میں بھرپور حصہ ڈالا ۔ ۔ اس حوالے سے یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی عدلیہ کا کردار بھی بہت سے سوالوں کے جنم دیتا ہے ۔
’’ سابر متی ایکسپریس ‘‘ کی آتش زدگی کے’’ مبینہ‘‘ جرم میں21 مسلمانوں کو پھانسی سمیت مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں مگر ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کے گھناؤنے جرم میں ملوث شاید ہی کسی کو سزا ملی ہے ۔ مرحوم احسان جعفری اور ان کے ساتھ پچاس سے زائد معصوم عورتوں اور بچوں سے زندہ رہنے کا حق چھیننے والے مجرم بھی کیفرِ کردار کو نہیں پہنچے تبھی تو 26 دسمبر 2013 کو جب بھارتی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو تمام الزامات سے بری قرار دیا تو احسان جعفری کی بے آسرا بیوہ بھارتی سپریم کورٹ کے اندر ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کے علاوہ مودی کے حکومت میں آنے کے بعد گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ’’ بی جے پی ‘‘کے سربراہ ’’ امت شاہ ‘‘ کو بھی دسمبر 2014 میں بری کر دیا گیا ۔
علاوہ ازیں پچھلے چند مہینوں میں اس وقت کے گجرات کے اعلیٰ پولیس افسر ’’ ڈی جی ونجارا ‘‘ اور ’’ گلاب چند کٹاریہ ‘‘ ، ’’ مایا کوڈیانی ‘‘ ،’’ کرپال سنگھ چھابڑا ‘‘ اور ’’ بابو بجرنگی ‘‘ سمیت سبھی بڑے مجرم رہا کر دیئے گئے ہیں جبکہ انسان دوست پولیس افسر ’’ سنجیو بھٹ ‘‘ کو جیل میں ڈ ال دیا گیا ہے اور ’’ تیستا سیتل واڑ ‘‘ کے خلاف بہت سے مقدمات درج کر لئے گئے ہیں ۔
برہمنی انصاف کی ان کالی کرتوتوں کو واضح کرتے مبصرین نے کہا ہے کہ ایک جانب ہزاروں انسانوں کے مسلمہ قاتلوں کو رہا کیا جا ر ہا ہے تو دوسری جانب اکتوبر 1998 میں ممتاز فلمی بھارتی اداکار ’’ سلمان خان ‘‘ کے خلاف کالے ہرن کو مارنے کے سنگین جرم میں 3 مارچ2015 کو جودھپور کی عدالت ان کی سزا کا فیصلہ سنانے والی ہے کیونکہ ان کا جرم بھی یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔
اس معاملے کا یہ پہلو بھی قابلِ ذکر ہے کہ 3 ستمبر 2002 کو ’’ وی ایچ پی ‘‘کے سربراہ ’’ اشوک سنگھل ‘‘ اور ’’ اچایہ گری راج کشور ‘‘ نے امرتسر میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ
’’گجرات کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے اس لئے کوشش کی جائے گی کہ اسے پورے بھارت میں دہرایا جائے ‘‘ ۔
غالباً اسی تجربے کے نتیجے میں ’’ بی جے پی ‘‘ پورے بھارت میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اب مقبوضہ کشمیر میں بھی مفتی صاحب کو اپنا آلہ کار بنا کر حکومت بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہے اور عمر عبداللہ کی اس بات میں غالباً وزن ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی راجدھانی درحقیقت ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے ہیڈ کوارٹر ناگ پور منتقل ہو گئی ہے ۔ اور اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں بھارت کے طول و عرض میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے ۔
یکم مارچ کو روز نامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
ّ( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )