Newspaper Article 26/07/2014
بھارتی حکومت نے دہلی میں تعینات جموں کشمیر کی بابت اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کا دفتر بند کر کے کہا ہے کہ چونکہ ۱۹۷۲ کے شملہ معاہدے میں دونوں حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے کو دو طرفہ بنیاد پر حل کرنے پر اتفاق کیا تھا لہذا اب اس مسئلے میں اقوامِ متحدہ کے کردار کوئی کی گنجائش نہیں رہی اس لئے فوراً دہلی میں دفتر بند کر دیا جائے ۔
سفارتی حلقوں نے مودی حکومت کے اس فیصلے کو انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں اس خطے میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس بھارتی حرکت کو کسی بھی طور خوش آئند اور حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جا سکتا۔یوں بھی ایسی طفلانہ حرکتوں سے کشمیر کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ کے ذہنوں سے کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں دیرینہ حل طلب تنازعات میں یہ سر فہرست ہے۔
شاید مکافات عمل کے آفاقی اصول کے تحت اس بھارتی حرکت کے اگلے ہی روز بھارتی دانشور ’’ڈاکٹر وید پرتاب ویدک کا وہ بیان سامنے آ گیا جس میں انھوں نے کشمیر کی آزادی کی بات کی ہے۔بھارت کے تمام الیکٹرانک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وید پرتاب ویدک نے کہا ہے کہ کشمیری اگر آزادی کے خواہاں ہیں تو ان کو آزاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔بھارتی میڈیا میں جب اس بابت زیادہ ہنگامہ کھڑا ہوا تو ڈاکٹر ویدک نے کہا کہ انھوں نے کشمیر کی آزادی کی بات کی ہے ،اس کی علیحدگی کی بات نہیں کی ۔یوں بھارت میں الزام در الزام اور وضاحت در وضاحت کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر ویدک ’’آر ایس ایس‘‘اور ’’بی جے پی‘‘کے بنیادی ارکان میں شمار ہوتے ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بھارت کے اس موقف کو پوری طرح مسترد کر دیا گیا ہے جو اس نے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ ۲۶ مئی کو جب نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تھا تو ایک حلقے کی جانب سے توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شاید نئے بھارتی حکمران عقلِ سلیم کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے قیام کے اس سنہرے موقع کوضائع نہ کریں۔ اسی پس منظر میں اعتدال پسند حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنے اقتدار کے پہلے پچاس روز پورے کر چکے ہیں اور ان کی داخلی اور خارجی محاذ پر کارکردگی کا جائزہ لیں تو بڑی حد تک واضح ہوتا ہے کہ مودی نے حکومت سنبھالنے سے قبل جو بلند بانگ دعوے کیے تھے اس حوالے سے ابتدائی کارکردگی کسی بھی طور قابلِ رشک نہیں رہی ۔
مثلا داخلی محاذ پر خواتین کے خلاف ہر طرح کے جرائم میں اس دوران ۶۰ فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔انفرادی اور اجتماعی آبرو ریزی بھارت کے طول و عرض میں سکہ رائج الوقت بن کر رہ گئی ہے۔اقتصادی محاذ پر مہنگائی اور بے روز گاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔بھارتی اخبار سہارا کی ۱۶ جولائی کی اشاعت میں کلدیپ نئیر نے لکھا ہے کہ ریزرو بنک آف انڈیا یعنی ’’آر بی آئی‘‘کے سابق گورنر کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر دس میں سے تین ہندوستانی شہری خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور یہ صورتحال اگست ۱۹۴۷ میں برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے سے پہلے کی صورتحال سے کہیں زیادہ بدتر ہے ۔کلدیپ نئیر اور ’’آر بی آئی)گورنر کی اس بات پر غالباً مزید کسی تبصرے کی گنجائش نہیں۔
خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی صورتحال زیادہ خوش کن نہیں ۔اگرچہ مودی اس دوران بھوٹان اور برازیل کا دورہ کر چکے ہیں ۔برازیل میں تو چین روس،جنوبی افریقہ اور برازیل کے سربراہوں سے ان کی ملاقات بھی خاصے گرم جوشی کے ماحول میں ہوئی۔اور ان ملکوں نے”برکِس بنک “قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو بظاہر ایک بڑی پیش رفت ہے ۔مگر تاحال یہ سب کچھ رسمی سا ہے اور اس کے ٹھوس نتائج کی بابت ہنوز انتظار کرنا پڑے گا البتہ اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کے حوالے سے بھارت سرکار کا فیصلہ ان خدشات کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا ہے کہ مودی سرکار بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی مانند توسیع پسندی اورریاکاری پر مبنی روش پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے۔اس تمام پس منظر میں مودی حکومت کے پہلے پچاس دنوں کی کارکردگی کو کنفیوژن پر مبنی روش سے زیادہ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
پچیس جولائی کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا خیالات مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)