Newspaper Article 09/11/2015
بھارتی صوبہ ’’ بہار ‘‘ کے عام صوبائی انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں ۔ یہ انتخابات پانچ مراحل یعنی بارہ اکتوبر ، سولہ اکتوبر ، اٹھائیس اکتوبر ، یکم نومبر اور پانچ نومبر کو ہوئے ۔ 243 رکنی اسمبلی کے لئے بھر پور انتخابی مہم چلائی گئی ۔ نریندر مودی نے ذاتی طور پر اس مہم کی قیادت کی اور بہار میں بارہ انتخابی جلسوں میں حصہ لیا ۔ ان کے مقابلے میں ’’ نیتش کمار ‘‘ ، ’’ لالو پرشاد یادو ‘‘ اور ’’ کانگر س ‘‘ کا گرینڈ الائنس تھا مگر نتائج نے ثابت کر دیا کہ بہار کے مسلمان ووٹروں نے نریندر مودی کی جنونی سونامی کے آگے ایک مضبوط بند باندھ کر اسے واپسی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ یاد رہے کہ بہار میں تقریباً 17 فیصد مسلمان ووٹر ہیں جن میں سے پچاسی فیصد نے ’’ بی جے پی ‘‘ کی قیادت والے ’’ این ڈی اے ‘‘ نامی اتحاد کے خلاف ووٹ دیا ۔ اسی کے ساتھ لالو پرشاد کے حق میں ’’ یادو ‘‘ ذات کے ووٹروں نے ووٹ ڈالا اور ’’ کرمی ‘‘ ذات کے ہندوؤں نے ’’ نیتش کمار ‘‘ کے حق میں فیصلہ دیا ۔ یوں ان تینوں نے اتفاق رائے سے ہندوؤں کے سب سے بڑے تہوار ’’ ویوالی ‘‘ سے محض چار روز پہلے مودی کا ’’ دیوالیہ ‘‘ نکال دیا ۔
جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو ’’ بی جے پی ‘‘ اور اس کے ہم نواؤں نے ’’ ترقی‘‘ اور ’’ وکاس ‘‘ کے ایشوز کو بڑا انتخابی مدا بنایا مگر جوں جوں انتخابی مہم آگے بڑھی ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور ’’ بی جے پی ‘‘ کی جانب سے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بیانات میں تیزی آتی چلی گئی۔ لوگوں کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ’’ بی جے پی ‘‘ نے گؤ ما تا کے گوشت کے مسئلے کو سر فہرست رکھ لیا ۔ یوں گائے کی دم پکڑ کر انتخابی دریا کو عبور کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اسی کے ساتھ ’’ بی جے پی ‘‘ کے سربراہ ’’ امت شاہ ‘‘ نے بار بار کہا کہ ’’ اگر مودی ہار گئے تو پاکستان میں خوشیاں منائی جائیں گی اور وہاں فتح کے شادیانے بجیں گے اور اظہار مسرت کے طور پر پٹاخے پھوٹیں گے ‘‘ ۔ یوں سیدھے طور پر پاکستان کو بھارت کی داخلی سیاست کا اہم ایشو بنا دیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات کے دوران فریقین کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست میں اخلاقیات ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ تبھی تو مودی نے 2 نومبر کو کہا کہ ’’ چھ روز بعد بہار کے عوام لالو اور نتیش کو ان کی اوقات یاد دلا دیں گے ‘‘ ۔ جواب میں لالو پرشاد یادو کا کہنا تھا کہ ’’ چھ روز بعد بہاری مودی کو چھٹی کا دودھ یاد دلائیں گے ‘‘ ۔ انتخابی مہم کے آغاز میں ہی مودی نے کہا تھا کہ ’’ نتیش کمار کے ’’ ڈی این اے ‘‘ ہی میں خرابی ہے ‘‘ ۔ اس جملے کو نتیش اور لالو نے سیاسی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے بہار کے تمام عوام کے لئے ایک گالی قرار دیا اور عام بہاریوں میں یہ تاثر پختہ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مودی نے بہار کے عوام کے خراب ’’ ڈی این اے ‘‘ کی بات کہہ کر در اصل یہ کہا ہے کہ ’’ اس صوبے کے عوام کا خمیر ہی برائی سے اٹھا ہے ‘‘ ۔
اس کے علاوہ مودی نے لالو پرشاد یادو کی بیٹی ’’ میسا بھارتی ‘‘ کے بارے میں انتخابی جلسے میں کہا کہ ’’ لالو نے اپنی بیٹی کو ’’ سیٹ ‘‘کرانے کے لئے پورے بہار کو ’’ ڈی سیٹ ‘‘ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ‘‘ ۔ جواب میں ’’ میسا بھارتی ‘‘ نے کہا کہ ’’ مودی نے ’’ سیٹ ‘‘ کرانے کی گالی دے کر پورے بہار کی خواتین کے خلاف نا شائستہ زبان استعمال کی ہے اور یوں بھی چونکہ مودی جی کو تو اپنی دھرم پتنی کے سمان ( احترام ) تک کی پروا نہیں ، انھیں بھلا دوسری کسی عورت کی عزت نفس کا خیال کیسے ہو سکتا ہے ‘‘ ۔ ایک جلسے میں مودی نے ’’ لالو پرشاد یادو ‘‘ کے لئے شیطان کا لفظ استعمال کیا جبکہ ’’ لالو ‘‘ کے حامیوں میں یہ دلچسپ نعرہ عام تھا کہ ’’ سموسے میں جب تک آلو رہے گا ، پٹنہ بہار میں لالو رہے گا ‘‘ ۔
اس ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈیڑھ برس قبل مودی نے بھارتی عوام سے ترقی اور خوشحالی کے لمبے چوڑے دعوے کیے تھے اوریہاں تک کہا تھا کہ ’’ ہر بھارتی شہری کے کھاتے ( اکاؤنٹ ) میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرائے جائیں گے اور یہ کام بیرونی ملکوں میں جمع کرائے گئے کالے دھن کو واپس لا کر کیا جائے گا مگر عملی طور پر صوتحال یہ ہوئی کہ اپنے عہد اقتدار کا چوتھا حصہ گزارنے کے باوجود موصوف بھارتی عوام کے لئے کچھ بھی نہ کر پائے ۔ انھوں نے اپنا سارا زور بیرونی دوروں پر رکھا یا پھر پاکستان کے خلاف بیان بازی اور ’’ ایل او سی ‘‘ پر جارحیت پر ۔ بھارت کے اندر بھی ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور ’’ بی جے پی ‘‘ نے مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف آئے روز بد زبانی کو اپنا معمول بنا لیا جس وجہ سے بھارت کے اندر عدم برداشت کی بد ترین فضا پیدا ہو چکی ہے ۔ ہندوؤں کو رام زادے اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ح ۔۔۔ زادے کہا جانا معمول کی بات بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کی سول سوسائٹی کے عناصر نے ایوارڈ ز واپسی کی فعال مہم شروع کر رکھی ہے ۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔
بہر کیف بہار کے عوام نے تو مودی کے جنونی طرز عمل کے آگے بند باندھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری بھی چند روز بعد مودی کے دورہ برطانیہ و فرانس کے دوران اپنی انسانی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے موصوف کی روش کی حوصلہ شکنی کے ضمن میں اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی ۔
جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو ’’ بی جے پی ‘‘ اور اس کے ہم نواؤں نے ’’ ترقی‘‘ اور ’’ وکاس ‘‘ کے ایشوز کو بڑا انتخابی مدا بنایا مگر جوں جوں انتخابی مہم آگے بڑھی ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور ’’ بی جے پی ‘‘ کی جانب سے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بیانات میں تیزی آتی چلی گئی۔ لوگوں کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ’’ بی جے پی ‘‘ نے گؤ ما تا کے گوشت کے مسئلے کو سر فہرست رکھ لیا ۔ یوں گائے کی دم پکڑ کر انتخابی دریا کو عبور کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اسی کے ساتھ ’’ بی جے پی ‘‘ کے سربراہ ’’ امت شاہ ‘‘ نے بار بار کہا کہ ’’ اگر مودی ہار گئے تو پاکستان میں خوشیاں منائی جائیں گی اور وہاں فتح کے شادیانے بجیں گے اور اظہار مسرت کے طور پر پٹاخے پھوٹیں گے ‘‘ ۔ یوں سیدھے طور پر پاکستان کو بھارت کی داخلی سیاست کا اہم ایشو بنا دیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات کے دوران فریقین کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست میں اخلاقیات ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ تبھی تو مودی نے 2 نومبر کو کہا کہ ’’ چھ روز بعد بہار کے عوام لالو اور نتیش کو ان کی اوقات یاد دلا دیں گے ‘‘ ۔ جواب میں لالو پرشاد یادو کا کہنا تھا کہ ’’ چھ روز بعد بہاری مودی کو چھٹی کا دودھ یاد دلائیں گے ‘‘ ۔ انتخابی مہم کے آغاز میں ہی مودی نے کہا تھا کہ ’’ نتیش کمار کے ’’ ڈی این اے ‘‘ ہی میں خرابی ہے ‘‘ ۔ اس جملے کو نتیش اور لالو نے سیاسی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے بہار کے تمام عوام کے لئے ایک گالی قرار دیا اور عام بہاریوں میں یہ تاثر پختہ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مودی نے بہار کے عوام کے خراب ’’ ڈی این اے ‘‘ کی بات کہہ کر در اصل یہ کہا ہے کہ ’’ اس صوبے کے عوام کا خمیر ہی برائی سے اٹھا ہے ‘‘ ۔
اس کے علاوہ مودی نے لالو پرشاد یادو کی بیٹی ’’ میسا بھارتی ‘‘ کے بارے میں انتخابی جلسے میں کہا کہ ’’ لالو نے اپنی بیٹی کو ’’ سیٹ ‘‘کرانے کے لئے پورے بہار کو ’’ ڈی سیٹ ‘‘ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ‘‘ ۔ جواب میں ’’ میسا بھارتی ‘‘ نے کہا کہ ’’ مودی نے ’’ سیٹ ‘‘ کرانے کی گالی دے کر پورے بہار کی خواتین کے خلاف نا شائستہ زبان استعمال کی ہے اور یوں بھی چونکہ مودی جی کو تو اپنی دھرم پتنی کے سمان ( احترام ) تک کی پروا نہیں ، انھیں بھلا دوسری کسی عورت کی عزت نفس کا خیال کیسے ہو سکتا ہے ‘‘ ۔ ایک جلسے میں مودی نے ’’ لالو پرشاد یادو ‘‘ کے لئے شیطان کا لفظ استعمال کیا جبکہ ’’ لالو ‘‘ کے حامیوں میں یہ دلچسپ نعرہ عام تھا کہ ’’ سموسے میں جب تک آلو رہے گا ، پٹنہ بہار میں لالو رہے گا ‘‘ ۔
اس ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈیڑھ برس قبل مودی نے بھارتی عوام سے ترقی اور خوشحالی کے لمبے چوڑے دعوے کیے تھے اوریہاں تک کہا تھا کہ ’’ ہر بھارتی شہری کے کھاتے ( اکاؤنٹ ) میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرائے جائیں گے اور یہ کام بیرونی ملکوں میں جمع کرائے گئے کالے دھن کو واپس لا کر کیا جائے گا مگر عملی طور پر صوتحال یہ ہوئی کہ اپنے عہد اقتدار کا چوتھا حصہ گزارنے کے باوجود موصوف بھارتی عوام کے لئے کچھ بھی نہ کر پائے ۔ انھوں نے اپنا سارا زور بیرونی دوروں پر رکھا یا پھر پاکستان کے خلاف بیان بازی اور ’’ ایل او سی ‘‘ پر جارحیت پر ۔ بھارت کے اندر بھی ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور ’’ بی جے پی ‘‘ نے مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف آئے روز بد زبانی کو اپنا معمول بنا لیا جس وجہ سے بھارت کے اندر عدم برداشت کی بد ترین فضا پیدا ہو چکی ہے ۔ ہندوؤں کو رام زادے اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ح ۔۔۔ زادے کہا جانا معمول کی بات بن چکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کی سول سوسائٹی کے عناصر نے ایوارڈ ز واپسی کی فعال مہم شروع کر رکھی ہے ۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔
بہر کیف بہار کے عوام نے تو مودی کے جنونی طرز عمل کے آگے بند باندھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری بھی چند روز بعد مودی کے دورہ برطانیہ و فرانس کے دوران اپنی انسانی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے موصوف کی روش کی حوصلہ شکنی کے ضمن میں اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)