Newspaper Article 22/10/2017
یہ بات بھلا کس سے پوشیدہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم اور سفاکی و بربریت کا ایسا قہر برپا کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں سابق بھارتی وزیر خارجہ و خزانہ اور ’’بی جے پی ‘‘ رہنما ’’ یشونت سنہا ‘‘ کو کہنا پڑا کہ’’ کشمیر بھارت کے ہاتھ نکل رہا ہے ، اگر دہلی نے اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو شاید پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچے ۔ ‘‘ یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مودی نے صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کر دی ہے ۔
جس کی ایک تازہ ترین دلیل یہ بھی ہے کہ بھارت کے سب سے بڑے صوبے جس کی آبادی بائیس کروڑ کے قریب ہے ، کی سیاحتی گائیڈ سے آگرہ میں واقع ’’ تاج محل ‘‘ جیسے شہرہ آفاق مقام کو خارج کر دیا ہے ۔ واضح رہے کہ انڈیا میں کل جتنے سیاح جاتے ہیں ان میں سے ایک چوتھائی صرف تاج محل دیکھنے جاتے ہیں۔ مگر عجائباتِ عالم میں شامل ایک عجوبہ تاج محل اترپردیش کی بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی کا شکار ہے اور پہلے اسے یو پی کی’ثقافتی وراثت’ کی فہرست سے خارج کیا گیا اور اب اسے یو پی کی ’’سیاحتی گائیڈ‘‘ ے بھی نکال باہر کیا گیاہے اور تاج محل کی جگہ متھرا، ایودھیا اور گورکھپور کے مندروں کو شامل کیا گیا ہے ۔
دوسری جانب مبصرین نے کہا ہے کہ را اور دیگر بھارتی خفیہ ادارے عرصہ دراز سے پاکستان کے اندر ہر سطح پر دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ جس کے دستاویزی ثبوت بھی کئی بار دہلی سرکار کو فراہم کیے جا چکے ہیں ۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیرکے ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈر کے مقام ’’ساکن ٹوپو ‘‘ کا رہائشی محمد شبیر ولد نتھے خان 1987 میں بھارتی انٹیلی جنس کے ایما پر آزاد کشمیر آیا اور پاکستان کے خلاف تخریبی سر گرمیوں میں مصروف ہو گیا ۔ اس دہشتگرد نے 17 دسمبر 1999 کو اسلام گڑھ میں ایک بس میں دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں 8 افراد جاں بحق جبکہ 22 زخمی ہوئے تھے ۔ میر پور میں سیشن کورٹ میں ا س کے مقدمے کی سماعت ہوئی جس کے بعد اس کو سزائے موت سنائی گئی ۔ تا حال اس کی اپیل پر فیصلہ نہیں ہوا ۔مگر یہ امر یقیناًپاکستان کے قابلِ تشویش ہونا چاہیے کہ مذکورہ دہشتگرد کی جانب سے بھارتی حکومت نے اس تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس سے پہلے کلبھوشن کے معاملے میں بھی یہی کچھ کیا گیا تھا ۔
دوسری جانب اسی ضمن میں سبھی جانتے ہیں کہ ’’کشمیر سنگھ‘‘ نامی بھارتی جاسوس کو 1973 میں راولپنڈی میں گرفتار کیا گیا تھا جس سے انتہائی حساس نوعیت کی دستاویزات برآمد ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ اسے سزائے موت سنائی گئی تھی مگر بعد ازاں 4 مارچ 2008 کو اسے پاکستانی جیل سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا ۔ اسی بھارتی جاسوس نے پاکستان سے روانگی سے قبل پاکستان کی بابت انتہائی اچھے جذبات کا اظہار کیا مگر ہندوستان میں داخلے کے فوراًبعد اس نے پاکستان کی بابت جو زہر اگلا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ اسی سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر کلبھوشن یادو کا نام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
انسان دوست حلقوں نے ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور مودی کے رویے کا تذکرہ کرتے کہا ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ چار اکتوبر کو دنیا بھر میں جانوروں کا عالمی منایا گیا ۔ حیوانوں کے اس دن کی بابت سنتے ہی جانے کیوں ذہن میں بے ساختہ طور پر مودی کا خیال آیا ۔ اور یہ سوال ذہن کے کسے گوشے میں ابھرا کہ سفاک مودی کو حیوان قرار دینا بے زبان جانوروں کے ساتھ زیادتی تو نہیں !
جس کی ایک تازہ ترین دلیل یہ بھی ہے کہ بھارت کے سب سے بڑے صوبے جس کی آبادی بائیس کروڑ کے قریب ہے ، کی سیاحتی گائیڈ سے آگرہ میں واقع ’’ تاج محل ‘‘ جیسے شہرہ آفاق مقام کو خارج کر دیا ہے ۔ واضح رہے کہ انڈیا میں کل جتنے سیاح جاتے ہیں ان میں سے ایک چوتھائی صرف تاج محل دیکھنے جاتے ہیں۔ مگر عجائباتِ عالم میں شامل ایک عجوبہ تاج محل اترپردیش کی بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی کا شکار ہے اور پہلے اسے یو پی کی’ثقافتی وراثت’ کی فہرست سے خارج کیا گیا اور اب اسے یو پی کی ’’سیاحتی گائیڈ‘‘ ے بھی نکال باہر کیا گیاہے اور تاج محل کی جگہ متھرا، ایودھیا اور گورکھپور کے مندروں کو شامل کیا گیا ہے ۔
دوسری جانب مبصرین نے کہا ہے کہ را اور دیگر بھارتی خفیہ ادارے عرصہ دراز سے پاکستان کے اندر ہر سطح پر دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ جس کے دستاویزی ثبوت بھی کئی بار دہلی سرکار کو فراہم کیے جا چکے ہیں ۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیرکے ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈر کے مقام ’’ساکن ٹوپو ‘‘ کا رہائشی محمد شبیر ولد نتھے خان 1987 میں بھارتی انٹیلی جنس کے ایما پر آزاد کشمیر آیا اور پاکستان کے خلاف تخریبی سر گرمیوں میں مصروف ہو گیا ۔ اس دہشتگرد نے 17 دسمبر 1999 کو اسلام گڑھ میں ایک بس میں دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں 8 افراد جاں بحق جبکہ 22 زخمی ہوئے تھے ۔ میر پور میں سیشن کورٹ میں ا س کے مقدمے کی سماعت ہوئی جس کے بعد اس کو سزائے موت سنائی گئی ۔ تا حال اس کی اپیل پر فیصلہ نہیں ہوا ۔مگر یہ امر یقیناًپاکستان کے قابلِ تشویش ہونا چاہیے کہ مذکورہ دہشتگرد کی جانب سے بھارتی حکومت نے اس تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس سے پہلے کلبھوشن کے معاملے میں بھی یہی کچھ کیا گیا تھا ۔
دوسری جانب اسی ضمن میں سبھی جانتے ہیں کہ ’’کشمیر سنگھ‘‘ نامی بھارتی جاسوس کو 1973 میں راولپنڈی میں گرفتار کیا گیا تھا جس سے انتہائی حساس نوعیت کی دستاویزات برآمد ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ اسے سزائے موت سنائی گئی تھی مگر بعد ازاں 4 مارچ 2008 کو اسے پاکستانی جیل سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا ۔ اسی بھارتی جاسوس نے پاکستان سے روانگی سے قبل پاکستان کی بابت انتہائی اچھے جذبات کا اظہار کیا مگر ہندوستان میں داخلے کے فوراًبعد اس نے پاکستان کی بابت جو زہر اگلا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ اسی سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر کلبھوشن یادو کا نام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
انسان دوست حلقوں نے ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور مودی کے رویے کا تذکرہ کرتے کہا ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ چار اکتوبر کو دنیا بھر میں جانوروں کا عالمی منایا گیا ۔ حیوانوں کے اس دن کی بابت سنتے ہی جانے کیوں ذہن میں بے ساختہ طور پر مودی کا خیال آیا ۔ اور یہ سوال ذہن کے کسے گوشے میں ابھرا کہ سفاک مودی کو حیوان قرار دینا بے زبان جانوروں کے ساتھ زیادتی تو نہیں !
۔چھ اکتوبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )