Skip to content Skip to footer

پاکستانی سرمایہ کاروں کی مشکلات اور بنگلہ دیشی الیکشن

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

بنگلہ دیش میں 5جنوری 2014کو پارلیمنٹ کے عام انتخابات انتہائی تشدد کی فضا میں منعقد ہوئے ۔ انتخابی مہم کے دوران خون ریزی کا یہ عالم تھا کہ کم از کم 150 سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ہزاروں لوگ شدید زخمی ہوئے۔بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں 300 ارکان کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے جبکہ 50 خواتین بلواسطہ طور پر چنی جاتی ہیں۔300 ارکان میں سے 153 بلامقابلہ منتخب ہو گئے تھے ان سب کا تعلق حکمران عوامی لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں سے تھا باقی 147 حلقوں میں 5 جنوری کو پولنگ کا ڈرامہ رچایا گیا مگر خود بھارتی اور بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔مبصرین کے مطابق ان انتخابات کی عالمی ساکھ کا تو یہ عالم تھا کہ بین الاقوامی مبصرین کی مانیٹرنگ ٹیموں نے بھی انتخابی عمل کی مانیٹرنگ سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ جن انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) حصہ ہی نہ لے رہی ہو ایسے نام نہادانتخابی عمل کو ایک ڈھونگ سے زیادہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ BNP اور اس کی اتحادی جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابی شیڈول کے اعلان سے پہلے شیخ حسینہ واجد وزیرِ اعظم کے منصب سے الگ ہو جائیں اس کے علاوہ ان کی ساری کابینہ بھی مستعفی ہو کر آئین کے مطابق غیر جانبدار حکومت قائم کرے اور اس کی زیرِ نگرانی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہو مگر عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی شیخ حسینہ کو بخوبی علم تھا کہ گذشتہ پانچ سال میں انھوں نے عوامی فلاح کا کوئی کام نہیں کیا لہذا غیر جانبدار حکومت کی موجودگی میں ان کا الیکشن جیتنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے اسی وجہ سے انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ میں اپنی عددی اکثریت کی بنا پر آئین میں یہ ترمیم کرلی تھی کہ الیکشن کے دوران غیر جانبدار حکومت کا قیام آئینی طور پر ضروری نہیں۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی توجہ کا حامل ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں عوامی لیگی حکومت نے اپنے بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے بہت سے ایسے رہنماؤں کو سخت سزائیں سنائی تھیں جنہوں نے 1971 میں پاکستانی حکومت اور افواجِ پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔اسی حوالے سے عبدالقادر ملا جنہیں پہلے ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا دی تھی بعد میں بنگلہ دیشی حکومت کے ایما پر سپریم کورٹ نے اس سزا کو پھانسی میں تبدیل کر دیا اور اس بزرگ شخص کو پاکستان کی محبت کے جرم میں 42 سال بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کو 95 سال کی عمر میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی ان کے علاوہ بھی بے شمار بزرگوں کو حسینہ واجد کی حکومت عمر قید اور پھانسی دینے کی سعی کر رہی ہے ۔
اس صورتحال کی وجہ سے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنے والے 10 ہزار سے زائد پاکستانی صنعت کار اور تاجر سخت خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہیں کیونکہ عوامی لیگی سرکار نے پورے بنگلہ دیش میں اپنے کارکنوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف نفرت اور انتقام کی ایسی آگ بھڑکا دی ہے جس نے پورے ماحول کو زہر آلودہ کر دیا ہے اور پاکستانی سرمایہ کاروں کو اپنی جان اور پراپرٹی سخت خطرے میں محسوس ہو رہی ہے اور ان میں سے اکثر یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ تو بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کی نیت سے اس لئے آئے تھے کہ اسلامی برادر ملک کی اکانومی کو سہاراملے گا مگر اب صورتحال یکسر نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔
یا درہے کہ گذشتہ دنوں بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم اعلانیہ یہ کہہ چکی ہیں کہ بنگلہ دیش کے کسی کونے میں پاکستان کے ہمدردوں یا پاکستانیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں اور انھیں وہاں کسی قسم کی پناہ گاہ میسر آنے کی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔واضح رہے کہ پاکستانی قومی اسمبلی نے جب ملا عبدالقادر کی پھانسی پر ایک قرار دار کے ذریعے تشویش ظاہر کی تھی تب حسینہ واجد نے مندرجہ بالا بیان دیا تھا۔چونکہ پاکستانی قومی اسمبلی میں اس قرار داد پر عمران خان نے بھی بحث میں حصہ لیا تھا اس لئے بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم نے اپنے عوام میں پاکستان کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے عمران خان کو جنرل نیازی کا بھتیجا قرار دے دیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوامی لیگ کی قیادت پاکستان کے خلاف عوامی جذبات مشتعل کرنے کے لئے کس حد تک غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔
ایسی صورتحال میں بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی صنعت کاروں اور تاجروں کی تشویش کو بے وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور وہ بجا طور پر کوشش اور خواہش کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں لگایا گیا اپنا سارا سرمایہ سمیٹ کر واپس وطنِ عزیز میں آ کر سرمایہ کاری کریں۔
7 جنوری کو ڈیلی صدائے چنار میں شائع ہوا۔

(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس کیلئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی  بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements