Newspaper Article 04/11/2015
ویسے تو پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کا سلسلہ ہمیشہ ہی جاری رہا ہے مگر ان دنوں ایک بار پھر بیرونی میڈیا میں یہ معاملہ نئے سرے سے جاری ہو گیا ہے ۔ قومی سلامتی کے نئے مشیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کی تقرری کو بنیاد بنا کر مغربی اور بھارتی میڈیا میں ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہے ۔ وطن عزیز کے میڈیا کے بعض حلقے بھی حسب روایت اس ضمن میں حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں اور حسب توفیق یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ جنرل جنجوعہ کی تقرری سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں ہنوذ توازن پیدا نہیں ہوا اور پاک فوج ہی بالا دست قوت کی حیثیت رکھتی ہے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس ضمن میں یہ کہا جا رہا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر سرتاج عزیز خاطر خواہ ڈھنگ سے فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے کیونکہ ان کے کندھوں پر خارجہ امور کا بوجھ بھی ہے اور یہ مفت مشورہ دیا جا رہا تھا کہ اس حساس منصب پر کسی ایسی شخصیت کا تعین کیا جائے جو انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’ اجیت ڈووال ‘‘ کی مانند فعال ہو اور اسے متعلقہ امور پر دسترس بھی حاصل ہو ۔ اب جب کہ عسکری اور سیاسی قیادت کی باہمی مشاورت سے اس پر انتہائی موزوں شخصیت کا تقرر عمل میں آیا ہے تو بجائے اس پر اطمینان ظاہر کرنے کی بجائے پراپیگنڈہ کے ان بزرجمہر وں نے نئی لائن لیتے ہوئے اس پر نقطہ چینی شروع کر دی ہے حالانکہ کسے علم نہیں کہ جنرل جنجوعہ نے سدرن کمانڈ کے سربراہ کی حیثیت سے موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت کے تحت انتہائی شاندار کردار ادا کیا ہے اور بلوچستان جیسے صوبے میں حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ جس کا اعتراف پاکستان کے بد ترین مخالفین بھی کر رہے ہیں ۔
ایسے میں مغربی اور بھارتی میڈیا کے حالیہ پراپیگنڈہ کو سراسر بغض معاویہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت میں مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے انڈین انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ ’’ اجیت ڈووال ‘‘ نہ صرف سیکورٹی پالیسیوں کے کرتا دھرتا ہیں بلکہ بھارتی خارجہ پالیسی کو مرتب کرنے میں بھی وہی روحِ رواں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ انڈین آئی بی کے ایک دوسرے سربراہ کو پاک افغان معاملات کے لئے وزیر اعظم کا خصوصی ایلچی مقرر کر کے وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ انڈین آرمی کے سابق چیف جنرل وی کے سنگھ کو وزیر مملکت برائے خارجہ امور بنایا گیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں را کے سابق سربراہ ’’ گریش چندر سکسینا ‘‘ عرصہ دراز سے گورنر کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ماضی میں بھی ’’ جنرل سنہا ‘‘ مقبوضہ ریاست کے گورنر تھے ۔علاوہ ازیں ممبئی کے پولیس کمشنر ’’ ستیہ پال سنگھ ‘‘ کو گذشتہ برس عہدے سے استعفیٰ دلایا گیا اور اس کے اگلے ہی رو ز انھیں میرٹھ ( یو پی ) سے بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا رکن منتخب کرایا گیا ۔ اسی طرح سابق بھارتی سیکرٹری داخلہ ’’ آر کے سنگھ ‘‘ کو ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی روز ’’ بی جے پی ‘‘ نے صوبہ بہار سے لوک سبھا کا رکن منتخب کرایا اور اب یہ دو نوں مودی سرکار کا اہم حصہ ہیں ۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے خلاف مغربی اور بھارتی میڈیا ان بے بنیاد الزام تراشیوں کا سلسلہ بند کرے گا اور وطن عزیز کے میڈیا کے بعض حلقے بھی دانستہ یا نا دانستگی میں ان پاک مخالف عناصر کے آلہ کار نہیں بنیں گے ۔تین نومبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہو ا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس ضمن میں یہ کہا جا رہا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر سرتاج عزیز خاطر خواہ ڈھنگ سے فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے کیونکہ ان کے کندھوں پر خارجہ امور کا بوجھ بھی ہے اور یہ مفت مشورہ دیا جا رہا تھا کہ اس حساس منصب پر کسی ایسی شخصیت کا تعین کیا جائے جو انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’ اجیت ڈووال ‘‘ کی مانند فعال ہو اور اسے متعلقہ امور پر دسترس بھی حاصل ہو ۔ اب جب کہ عسکری اور سیاسی قیادت کی باہمی مشاورت سے اس پر انتہائی موزوں شخصیت کا تقرر عمل میں آیا ہے تو بجائے اس پر اطمینان ظاہر کرنے کی بجائے پراپیگنڈہ کے ان بزرجمہر وں نے نئی لائن لیتے ہوئے اس پر نقطہ چینی شروع کر دی ہے حالانکہ کسے علم نہیں کہ جنرل جنجوعہ نے سدرن کمانڈ کے سربراہ کی حیثیت سے موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت کے تحت انتہائی شاندار کردار ادا کیا ہے اور بلوچستان جیسے صوبے میں حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ جس کا اعتراف پاکستان کے بد ترین مخالفین بھی کر رہے ہیں ۔
ایسے میں مغربی اور بھارتی میڈیا کے حالیہ پراپیگنڈہ کو سراسر بغض معاویہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت میں مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے انڈین انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ ’’ اجیت ڈووال ‘‘ نہ صرف سیکورٹی پالیسیوں کے کرتا دھرتا ہیں بلکہ بھارتی خارجہ پالیسی کو مرتب کرنے میں بھی وہی روحِ رواں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ انڈین آئی بی کے ایک دوسرے سربراہ کو پاک افغان معاملات کے لئے وزیر اعظم کا خصوصی ایلچی مقرر کر کے وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ انڈین آرمی کے سابق چیف جنرل وی کے سنگھ کو وزیر مملکت برائے خارجہ امور بنایا گیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں را کے سابق سربراہ ’’ گریش چندر سکسینا ‘‘ عرصہ دراز سے گورنر کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ماضی میں بھی ’’ جنرل سنہا ‘‘ مقبوضہ ریاست کے گورنر تھے ۔علاوہ ازیں ممبئی کے پولیس کمشنر ’’ ستیہ پال سنگھ ‘‘ کو گذشتہ برس عہدے سے استعفیٰ دلایا گیا اور اس کے اگلے ہی رو ز انھیں میرٹھ ( یو پی ) سے بی جے پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا رکن منتخب کرایا گیا ۔ اسی طرح سابق بھارتی سیکرٹری داخلہ ’’ آر کے سنگھ ‘‘ کو ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی روز ’’ بی جے پی ‘‘ نے صوبہ بہار سے لوک سبھا کا رکن منتخب کرایا اور اب یہ دو نوں مودی سرکار کا اہم حصہ ہیں ۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے خلاف مغربی اور بھارتی میڈیا ان بے بنیاد الزام تراشیوں کا سلسلہ بند کرے گا اور وطن عزیز کے میڈیا کے بعض حلقے بھی دانستہ یا نا دانستگی میں ان پاک مخالف عناصر کے آلہ کار نہیں بنیں گے ۔تین نومبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہو ا۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )