Skip to content Skip to footer

کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم کی داستان نہ صرف دل دہلا دینے والی ہے بلکہ اقوام عالم کے بنائے گئے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم برداشت کی حدوں سے تجاوز کر چکے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد وخواتین غرض کوئی بھی بھارتی جارحیت سے بچ نہیں سکا۔ بچوں پر ایسا بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے کہ اسکے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسانیت شرمانے لگتی ہے۔ جوانوں کو اغوا کر کے لاپتا کر دیا جاتا ہے اور بعد ازاں بے دردی سے مسخ شدہ لاشیں توہین آمیز انداز میں پھینک دی جاتی ہیں جو بھارت کی فرعونیت اور چنگیزیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر حوا کی بیٹی کی حرمت و تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔ ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنا بھارتی فوج اور بھارتی پولیس کا مشغلہ بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کی شاید ہی ایسی کوئی اور نظیر کہیں ملتی ہو۔

حال ہی میں جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے بھارت کے ایک معروف لکھاری رام پنیانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارتی حکومت کو اپنی جارحیت ترک کر کے یہ سوچنا چاہئے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار اور خود ساختہ علمبردار اور انسانی حقوق کی اہمیت پر مصنوعی راگ الاپنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کشمیری عوام کو ان کے حق خود ارادیت، آزادی رائے اور بنیادی حقوق کی فراہمی سے محروم کرنا اور بالجبر اپنا تسلط قائم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ جواہرلال نہرو نے ایک مرتبہ ایک تقریر میں کہا تھا۔ ’’لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے سے بڑھ کر اور کیا اہم ہو سکتا ہے۔‘‘

یونیورسل پریاؤک ریویو کے ورکنگ گروپ کے تحت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے تیرھویں اجلاس میں جو کہ 21مئی 2012تا یکم جون 2012 جاری رہا واضح کیا گیا کہ انڈیا میں بھارتی ریاستوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، گجرات اور ہماچل پردیش میں مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا نہ صرف استحصال کیا جاتا ہے بلکہ مختلف مواقع پر انسانیت سوز تشدد کے ذریعے انسانی حقوق کے ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ مذہبی آزادی کے موضوع پر پیش کی گئی اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹ میں بھی واشگاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لئے زمین تنگ ہے اور مذہبی اقلیتوں پر تشدد روا رکھا جاتا ہے۔

kasmirmain_insani.jpgایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز اسپیشل ایکٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مختلف مقدمات میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لئے اس کالے قانون کا فوری طور پر خاتمہ ضروری ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت بھارت کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر استثنیٰ حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث بھارتی اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں۔

یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کی موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے اقوام عالم میں بھارت کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے۔ اس بات کا اظہار جینوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل کے ایک اجلاس منعقدہ ستمبر 2015میں آزاد جموں و کشمیر کے رہنماؤں نے کیا۔ سید مفتی نقشبندی جو
APHC
کے سینئر رہنما ہیں اور آزادکشمیر کے امجد یوسف خان نے کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے بنائی گئی پالیسیاں بالکل غیرانسانی ہیں جو انہیں کسی صورت قبول نہیں ہیں۔ یہی قوانین معصوم نہتے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ماورائے عدالت قتل، اغوا اور عصمت دری جیسے گھناؤنے کھیل کھیلنے کے لئے بھارت کو جواز مہیا کرتے ہیں۔ کشمیری عوام جو کہ ایک طویل عرصے سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پرامن احتجاج کے ذریعے دنیا کو بھارتی جارحیت اور اپنی آزادی کے حصول کی تگ و دو سے آگاہ کر رہے ہیں، وہ کسی صورت بھی اپنے حقِ آزادی سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔

بے گناہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ جمہوری حقوق کی پیپلز یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں موجود کشمیری مسلمان ظلم و جبر اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہاں کی مقامی پولیس اوچھے ہتھکنڈوں سے انہیں ہراساں کرتی ہے۔ بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کر کے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور رہائی کے عوض بھاری رقوم کا بطور رشوت تقاضا کیا جاتا ہے۔ بھارتی پولیس نے افضل گرو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا اور بھارت کے شدت پسند حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسے پھانسی دے دی جو سراسر عدالتی قوانین اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھی۔

9/11کے بعد بھارت نے کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم میں مزید اضافہ کر دیا اور اُن کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کے لئے بھونڈی کوششیں کیں۔ 9/11کی آڑ میں بھارت کے ہاتھ کشمیری مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا ایک سنہری موقع مل گیا اور کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے کے لئے جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا کیا جانے لگا تاکہ اقوام عالم کی آنکھوں میں د ھول جھونک کر ان کے دلوں میں کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی ہمدردی کو ختم کیا جا سکے لیکن آج دنیا جان چکی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے حصول کی جدوجہد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ کشمیری عوام تو ایک عرصے سے اپنے حقوق کی آزادی کے لئے بھارت کی انتہاپسندی، جارحیت اور استعماریت کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف بھارتی مظالم کی فہرست کچھ یوں ہے کہ جنوری 1989تا دسمبر 2016 مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد کو شہید کیا گیا۔ 7073افراد کو بھارتی فوج اور پولیس نے حبس بے جا میں رکھ کر جھوٹی تفتیش کرتے ہوئے شہید کر دیا۔ 137,469افراد کو جھوٹے بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے ہراساں کیا گیا۔ 107,043افراد کو بے گھر کیا گیا۔ 107591بچے بھارتی مظالم کی وجہ سے یتیم ہوئے۔ 22826خواتین کے سہاگ اُجڑے۔ 10,717 خواتین پر جنسی تشدد کیا گیا اور انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی افواج سے انسانیت کی تذلیل کے لئے
PSA، TADA
اور
AFSP
جیسے کالے قوانین بنا رکھے ہیں۔ 8جنوری 2016کو بھارتی فوج نے ایک ہونہار کشمیری نوجوان برہان سلیم وانی کو شہید کر دیا جو کہ سوشل میڈیا پر بھارتی جارحیت کے خلاف ایک بھرپور اور موثر مہم چلا رہا تھا جس کے ذریعے بہت سے مقامی جوان تحریک آزادی میں نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ شامل ہوئے۔ وانی کی شہادت نے تحریک میں ایک نئی سوچ پھونک دی۔ اب تحریک شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی پھیل گئی۔ اس سے پہلے 2008اور 2010

میں اٹھنے والی تحریکیں صرف شہروں تک محدود تھیں مگر موجودہ لہر نہ صرف پوری شدت سے جاری ہے بلکہ پوری وادی میں پھیلتی جا رہی ہے۔
بھارت انسانیت سوز جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے کشمیری مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور ایسے مظالم توڑ رہا ہے کہ جن کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس کی ایک مثال پیلٹ گن کا استعمال ہے جو 2010 کے بعد 9جولائی 2016 کو دوبارہ وسیع پیمانے پر استعمال ہونا شروع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2ملین سے زائد پیلٹز
(Pellets)
استعمال ہوئی ہیں۔ جن سے 7000 سے زائد کشمیری بری طرح زخمی ہوئے اور بینائی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان میں مختلف کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔
کشمیر میں بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے لیکن اسے مزید مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے ہماری حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے ہرانٹرنیشنل فورم پر نہایت مضبوطی سے اپنا موقف پیش کریں اور انسانی حقوق کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی اور بھارتی جارحیت کے خلاف ایسا عالمی دباؤ تخلیق کریں جس سے بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ ہمیں چاہئے کہ بہترین اور موثر پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے قیامت خیز تشدد کی طرف عالمی توجہ مبذول کروانے کے لئے بھی مناسب حکمت عملی وضع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کو بھی یکجہتی کا ایسا پیغام دیتے رہنا چاہئے جس سے ان کے پائے استقامت کو مزید تقویت ملے اور حوصلہ افزائی کے اس تاثر سے ان کی تحریک آزادی میں جب ضرورت ہو نئی روح پھونکی جا سکے۔ بیرون ملک رہنے والے کشمیری مسلمانوں کی طرف سے بھی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا قابل ستائش ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تنازعہ کشمیر پر اقوام عالم کی توجہ اس وقت تک مبذول کرواتے رہنا چاہئے جب تک کشمیریوں کو آزادی مل نہیں جاتی جو ان کا بنیادی حق ہے۔

آج چونکہ میڈیا کا دور ہے لہٰذا سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی ایسی مناسب حکمت عملی مرتب کی جانی چاہئے جس سے کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی آواز کو پوری دنیا میں پھیلایا جا سکے اور بھارت کا اصلی مکروہ چہرہ بھی دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔ کشمیری مسلمان انڈیا اور پاکستان کے درمیان باہمی مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں مگر بھارتی بدنیتی کی وجہ سے ابھی تک انہیں ان مذاکرات کا باضابطہ حصہ نہیں بنایا گیا۔ ویسے بھی بھارت اپنے کمزور موقف کی وجہ سے ہمیشہ مذاکرات سے بھاگتا رہا ہے۔ بھارت کو چاہئے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی کو ترک کر کے کشمیری عوام کو ان کی مرضی کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے دے جس کی اجازت انہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی قراردادیں بھی دیتی ہیں۔

Article originally published in Hilal Magazine (urdu) February 2017.

Disclaimer: Views expressed are of the writer and are not necessarily reflective of IPRI policy.

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements