Newspaper Article 23/03/2014
بھارت میں 16 ویں لوک سبھا کے انتخابات کے لئے پولنگ 9 اپریل سے 12 مئی تک 9 مختلف مراحل میں ہو گی اور 16 مئی کو ووٹوں کی گنتی کے بعد غالباً اسی روز تمام نتائج بھی آ جائیں گے۔
اسی پس منظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ حکمران کانگرس چونکہ گذشتہ دس برس سے حکومت میں ہے اور لوگوں کے لئے خاطر خواہ ڈھنگ سے ترقی و خوشحالی کے ضمن میں عملی اقدامات نہیں کر پائی لہذا فطری طور پر آئندہ الیکشن میں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہیں مگر اس ضمن میں کانگرس کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ اگر وہ خود جیتنے کی پوزیشن میں نہیں تو بہتر ہے کہ بی جے پی جیت جائے نہ کہ علاقائی پارٹیاں یا عام آدمی پارٹی(AAP ) ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ علاقائی پارٹیوں کی اکثریت کی قیادت ماضی میں کانگرس کا ہی حصہ رہی ہے جیسا کہ مغربی بنگال کی ترنمول کانگرس ،بہار کا جنتا دل یونائیٹڈ،اور راشٹریہ جنتا دل،یو پی کی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی،اڑیسہ کا BJD اور دیگر صوبوں کی زیادہ تر علاقائی جماعتیں،کانگرس کے بطن ہی سے وجود میں آئیں ہیں اور ان کا منشور اور ایجنڈا بھی بظاہر کانگرس جیسا ہی ہے یعنی نام نہاد سیکولرازم اور سوشل ازم وغیرہ کے نعرے۔اسی وجہ سے وہ اپنے اپنے علاقوں میں کانگرس کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں اور کانگرس کے روایتی ووٹ بنک کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں ۔
جبکہ BJP کا معاملہ دوسرا ہے ۔اس پر تو کانگرس فرقہ واریت اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کا الزام لگا سکتی ہے جس سے عام ووٹر بھی اکثر متفق ہوتے ہیں لہذا اگلے انتخابات میں وہ کانگرس کی جانب دوبارہ مائل ہو سکتے ہیں جبکہ علاقائی پارٹیوں اور AAP کے حوالے سے یہ کانگرسی فارمولہ چلنے کی زیادہ امید نہیں ۔اسی وجہ سے کانگرس کی خواہش ہے کہ اس کی شکست کی صورت میں BJP جیت جائے تا کہ اگلی یعنی 17 ویں لوک سبھا کے انتخابات پانچ برس بعد 2019 میں ہوں یا اس سے پہلے مڈ ٹرم عام الیکشن کی نوبت آجائے تب کانگرس ہاری ہوئے بازی دوبارہ جیتنے کے لئے پر امید ہو ۔ واضح رہے کہ 2009 میں 15 ویں لوک سبھا کے نتائج اس امر کا ثبوت ہیں کہ جن صوبوں میں محض کانگرس اور بی جے پی کے مابین مقابلہ تھا ۔وہاں ڈالے گئے ووٹوں کا تقریبا 48 فیصد کانگرس کو ملا جبکہ جہاں کانگرس کا مقابلہ دو یا زیادہ فریقوں خصوصاً علاقائی پارٹیوں کے ساتھ تھا وہاں کانگرس کو 24 فیصد سے زائد ووٹ نہیں ملے ۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ جن صوبوں میں بی جے پی کے ساتھ کانگرس کی سیدھی ٹکر تھی وہاں 2009 میں اسے اونچی ذات کے ہندوؤں اور OBC یعنی Other Backward Casts کا 40 فیصد ووٹ ملا اور شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائبز کے نصف سے زیادہ ووٹ اور مسلمانوں کے 75 فیصد ووٹ ملے۔مگر جہاں علاقائی پارٹیاں موجود تھیں وہاں کانگرس کو اونچی ذات اور OBC ووٹوں کا 25 فیصد سے بھی کم ،شیڈول کاسٹ کا 20 فیصد اور مسلمان ووٹ اوسطً 33 فیصد ملا۔ایسے میں صاف ظاہر ہے کہ مستقبل کی حکمت عملی کے پیشِ نظر کانگرس کو بی جے پی کی کتنی شدید ضرورت ہے۔مخالفت محض نعرے بازی تک محدود ہے۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بھارت کے جمہوری دعوؤں کے باوجود جرائم میں ملوث افراد کی بڑی تعداد آسانی سے ہندوستانی پارلیمنٹ تک پہنچ جاتی ہے تبھی تو حالیہ 15 ویں لوک سبھا کے کل 484 مرد ارکان میں سے 152 یعنی تقریباً 31 فیصد مختلف الزامات میں ملوث ہیں جن میں کانگر س کے 39 ،بی جے پی کے 40 ،بی ایس پی کے 16 ، ٹی ایم سی کے 4 ،این سی پی کے 4 اور دیگر شامل ہیں ۔خواتینِ ارکانِ پارلیمنٹ بھی اس ضمن میں حسب توفیق حصہ ڈال رہیں ہیں ۔15 ویں لوک سبھا میں کل ارکان کا 11 فیصد خواتین ہیں ۔ان میں 17 فیصد یعنی دس کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے تحت مقدمات چل رہے ہیں ۔کانگرس کی 5 ،بی جے پی کی 4 اور شیو سینا کی 1 خاتون اس فہرست میں شامل ہیں۔کل 59 خواتین ارکان میں سے 40 کروڑ پتی ہیں یعنی خواتینِ ارکانِ پارلیمنٹ کا 68 فیصد کروڑ پتی ہیں ۔خواتین ملزم ارکان میں پرتاب گڑھ یو پی سے کا نگرس کی رکن راجکماری رتنا سنگھ، بہار سے بی جے پی کی رکن رما دیوی ،گجرات سے بی جے پی کی پونم بہن،مہاراشٹر سے شیو سینا کی بھاونا گاؤلی ،آندھرا پردیش سے کانگرس کی لکشمی پوجا ،آسام سے کانگرس کی رانی نواہ ،گجرات سے بی جے پی کی درشنا بہن،راجستھان سے کانگرس کی گرجا ویاس،یو پی سے بی جے پی کی مانیکا گاندھی اور یو پی سے کانگرس کی انو ٹنڈن ۔بہر کیف یہ صورتحال مسلمہ جمہوری اصولوں کے حوالے سے کسی طور قابلِ رشک قرار نہیں دی جا سکتی۔
کانگرس کا انتخابی نشان ’’ہاتھ‘‘ جبکہ بی جے پی کا انتخابی نشان ’’کنول کا پھول‘‘ ہے۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)