Newspaper Article 15/06/2014
چند روز قبل کراچی ایئرپورٹ پر دہشتگردی کا جو المناک سانحہ پیش آیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔مبصرین نے اس پس منظر میں کہا ہے کہ اس المیہ کے حوالے سے چند امور پر زیادہ توجہ مرکوز کی جانی چاہیے ۔اس واقعہ کی لائیو کوریج کرتے وقت الیکٹرانک میڈیا کے بعض حلقوں نے جس طرح غیر ضروری سنسنی خیزی پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی اسے محتاط ترین الفاظ میں بھی غیر ذمہ دارانہ صحافت اور اجتماعی قومی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے ۔علاوہ ازیں دہشتگردوں سے بڑی تعداد میں بھارتی اسلحہ برآمد ہونا بذاتِ خود بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے جس پر حکومت اور متعلقہ قومی اداروں کو اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تا کہ بین الاقوامی برادری کواس معاملے کی سنگینی اور ممکنہ غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے خاطر خواہ ڈھنگ سے آگاہ کیا جا سکے
خود ملک کے اند ر بھی یہ احساس موثر ڈھنگ سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ جذبہ حب الو طنی ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر پایا جاتا ہے ،بلکہ تمام پرندوں اور دیگر حیوانوں تک میں بھی کسی نہ کسی شکل میں یہ حس موجود ہوتی ہے تبھی تو دن ڈھلنے سے پہلے اور رات کی تاریکی سے قبل سبھی چھوٹے بڑے پرندے اپنے آشیانوں کی طرف محو پرواز ہوتے ہیں اور گائے بھینس اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اپنے اپنے ٹھکانوں کی راہ لیتے ہیں ۔
وطن کی محبت ایسا آفاقی جذبہ ہے جو ہر جاندار میں بدرجہ اتم پایا جا تا ہے اس کی مختلف اقسام مثلا اپنی جائے پیدائش ،گاؤں ،شہر اور ملک سے خصوصی انس ہونا ۔پاکستان کا قیام بھی اسی پس منظر میں عمل میں آیا کیونکہ صدیوں تک ہندو اکثریت کے ساتھ رہنے کے باوجود بر صغیر کے مسلمان با لآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی آئندہ نسلوں کی بقا کا دارومدار الگ مسلم مملکت کے قیام پر ہی منحصر ہے کسے معلوم نہیں کہ اقبال اور قائد نے ایک لمبے عرصے تک پوری کوشش کی کہ ہندو اکثریت کے ساتھ ہی متحدہ ہندوستان میں رہا جائے اس مقصد کے لیے قائد اعظم نے ایک لمبے عرصے تک کانگرس کی رکنیت بھی برقرار رکھی مگر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ ان کو قیام پاکستان کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر نی پڑیں۔
اسی طرح یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ شاعر مشرق ’’حضرت اقبال نے اپنی شاعری کے آغاز میں ہندوستانی قومیت کو بنیاد بناتے ہوتے اپنی مشہور نظم ’’ہندی ہیں ہم،وطن ہے ہندوستان ہمارا‘‘مگر بعد میں کانگرس کی ہندو قیادت کی تنگ نظر روش کو بھانپ کر فرمایا ’’مسلم ہیں ہم ،وطن ہے سارا جہان ہمارا‘‘اور اسی تناظر میں انہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔گزشتہ ۶۷ برس کی پاک بھارت تاریخ نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ مملکت خدادا د کا قیام پاکستانیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ،اسی وجہ سے عوام کی بھاری اکثریت حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور پاکستان سے بے پناہ محبت کرتی ہے
مگر بد قسمتی سے وطن عزیز کی مٹھی بھر اقلیت ایسی بھی ہے جس کا طرز عمل مختلف بلکہ متضاد ہے اس گروہ میں ایک جانب کئی نام نہاد دانشور اور چند میڈیا اینکرز شامل ہیں تو دوسری طرف خود کو اسلام کا ٹھیکے دار سمجھنے والے شدت پسند عناصر جنہوں نے ریاست پاکستان اور اس کے قومی اداروں کے خلاف نفرت پر مبنی مہم اور دہشت گرد ی پر مبنی روش اختیاد کررکھی ہے
کاش یہ طبقات بھارتی مسلمانوں کی زبوں حالی سے کچھ سبق حاصل کریں اور حب الوطنی کا مذاق اڑانے کو اپنی دانش واری کی انتہاء سمجھنے کی روش سے گریز اختیار کریں کیوں کہ مودی اور بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلم دشمنی پر مبنی مہم کے ذیعے جتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے اس میں عبرت کا سامان موجود ہے واضح رہے کہ بی جے پی نے دس بھارتی صوبوں ،دہلی، ہماچل پردیش،اتر کھنڈ ،گوا،گجرات، راجستھان ،دمن دیو،دادر نگر حویلی،انڈیمان نکو بار اور چندی گڑھ میں سو فیصد سیٹیں حاصل کیں اور ان میں ایک بھی مسلمان کامیاب نہیں ہوا اس کے علاوہ یوپی کی ۸۰ سیٹوں میں سے بھی کوئی مسلمان کامیاب نہیں ہو سکا
اس صورت حال میں ریاست پاکستان کے مخالف ان مٹھی بھر عناصر کی بابت ہی شائد امیرالاسلام ہاشمی نے اقبال کی ایک نظم میں رودبدل کر کے کہا تھا کہ
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناوں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تۂ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناوں
سولہ جون کو ڈیلی صدائے چنار میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)